ضلع گاندربل کے لار علاقے کی ہے جہاں سرگیہ موہن لال پنڈت کی بیٹی مینو کماری کی شادی جو بڈگام میں طے ہوئی تھی، درجنوں مسلمانوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ میزبانی کے فرائض بھی ادا کیے۔
وادی کشمیر میں سال 1990 میں عسکریت پسندی شروع ہونے کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں کشمیری پنڈتوں نے کشمیر سے ہجرت کرکے ملک کے کئی شہروں خاص کر جموں میں قیام پذیر ہوئے، جس کے دوران انہیں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اچانک اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسرے دوسرے وطن اور تہذیب میں اپنے آپ کو ڈھالنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
چونکہ کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے دوران کئی پنڈت گھرانے کشمیر میں ہی رہے اور مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے رہے جبکہ مسلمان ان کے ہر دکھ درد میں شامل ہوتے رہے۔ اس دوران اگرچہ وادی کشمیر میں جہاں کہیں بھی پنڈت گھرانے موجود ہیں ان کے گھر میں کسی شخص کی موت ہونے پر ان کی آخری رسومات مسلمانوں نے انجام دی۔
لیکن آخری رسومات کے ساتھ ساتھ کشمیری پنڈتوں کی شادی میں بھی مسلمان شریک ہوتے رہے۔ جس کی تازہ مثال ضلع گاندربل کے لار علاقے کی ہے جہاں سرگیہ موہن لال پنڈت کی بیٹی مینو کماری کی شادی جو بڈگام میں طے ہوئی تھی، درجنوں مسلمانوں نے شرکت کرکے اسے یہ احساس ہونے نہیں دیا کہ یہ پنڈت لڑکی یتیم ہے یا یہ پنڈت لڑکی علاقے میں دیگر پنڈت رشتہ داروں کے بغیر رہتی ہے بلکہ مسلمانوں نے اسے یہ یقین دلایا کہ ان کے رشتہ دار، بھائی بہنیں آپ کے ساتھ موجود ہیں۔
اس سلسلے میں پنڈتوں نے اپنی برادری سے تعلق رکھنے والے کھانا پکانے والے کی خدمات حاصل کی تھی، تاہم مسلمانوں نے بھی یہی کھانا کھا کر پنڈتوں کے ساتھ جشن اور خوشی منائی۔اس سلسلے میں مقامی لوگوں نے کہا ہے کہ اگرچہ لار گاندربل میں موجود کچھ پنڈت گھرانے موجود ہیں اور ان میں جب بھی کسی کی موت واقع ہوئی ہے تو ہم نے مرنے والے کی آخری رسومات انجام دے کر ہندو مسلم بھائی چارے کی مثالیں برقرار رکھی، تاہم آج پہلی بار ہے کہ ہماری منہ بولی پنڈت لڑکی کی شادی میں ہم اپنے اہل خانہ سمیت شریک ہوئے اور ہم پچھلے تین دنوں سے لگاتار شادی کی رسم میں برابر شریک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس ہندو مسلم بھائی چارے کی مثال کو ہمیشہ برقرار رکھ کر ان طاقتوں کو توڑ کر رکھیں گے جو کہ اس مثال کو توڑنے کی کوشش اور سازش میں لگے ہیں۔۔