ہندوستان میں عدلیہ کا مضبوط نظام ضلعی سطح سے لیکر اوپر تک قائم ہے، ملزموں کے داروگیر اور مجرموں کو سزا دینے دلانے کا طریقہ کار دستور میں مذکور ہے، جب تک اس کی پاسداری کی گئی، لوگوں کو انصاف ملتا رہا اور بہت سارے مواقع سے عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کے باوجود آج بھی اس پر عام لوگوں کا اعتبار واعتماد قائم ہے، عدالت ظلم کو دور کرنے اور مظلوم کو انصاف دینے کا مضبوط ذریعہ ہے۔
دستور میں اسے یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ظلم ہو اور عوام کے دستوری حقوق پامال کیے جا رہے ہوں تو وہ اس کی ان دیکھی نہیں کر سکتی، وہ بغیر کسی مدعی کے اپنی طور پر بھی مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے متعلقہ شخص اور حکومت کو عدالت میں طلب کر سکتی ہے، اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو دستور کے مطابق سزا بھی دے سکتی ہے۔
ہندوستان ایک لمبی مدت تک برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے، انگریزوں کے ذریعہ جو ظلم ڈھائے گئے، اس کی صداقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا، لیکن ان کے یہاں بھی عدالتوں میں پیشی ہوتی تھی، گواہی اور بیانات گذرتے تھے، پھر فیصلہ ہوتا تھا کہ اس کو کالا پانی بھیج دیا جائے، پھانسی دیدی جائے یا محصور کر دیا جائے، ہندوستان کی آزادی کی پوری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے، پھر جن کو وہ سزا دیتے تھے ان کے گھر اور املاک کو تباہ کرنے کا عام رجحان نہیں تھا، اگر ایسا ہوتا تو گاندھی نہرو، بھگت سنگھ وغیرہ کے مکانوں کو منہدم کر دیا جاتا، حالاں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
لیکن آزاد ہندوستان میں وہ ہو رہا ہے، جو انگریزوں نے بھی نہیں کیا، اب ہندوستان میں بلڈوزر کلچر نے رواج پا لیا ہے، نہ مقدمہ نہ سماعت، نہ گواہیاں اور نہ ہی بیانات، جس کے گھر پر پایا بلڈوزر دوڑا دیا، جمعہ کو نوٹس دیا اور سنیچر کو گھر منہدم، کوئی سنوائی کا موقع نہیں، اس لیے کہ سنیچر اتوار کو عدالت بند رہتی ہے، اس کلچر کو رواج اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے دیا، دھیرے دھیرے یہ پورے ہندوستان میں پھیلتا جا رہا ہے، جو آدمی حکومت کے خلاف ہے اس کا مکان تجاوزات کے دائرہ میں آجاتا ہے، اور اس کا ہی نہیں اس کی بیوی کا مکان بھی توڑ دیا جاتا ہے۔
الٰہ آباد میں جاوید پمپ کے جس مکان کو زمین بوس کیا گیا، وہ جا وید کا نہیں، جاوید کی بیوی کا تھا، اس کا پانی اور بجلی بل بھی اس کے نام تھا، پھر بھی اس کو توڑ دیا گیا، کیا جواز تھا اس کا؟ اب اس کی بیوی اور بیٹی سب گھر کی چھت سے محروم ہو گیے، سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی، سماعت کے لیے قبول بھی ہو گئی، لیکن انہدام کے بعد عدالت کیا کر سکتی ہے؟ بہت کرے گی تو کہے گی کہ یہ غیر قانونی عمل تھا اور سرکار معاوضہ ادا کرے، معاوضہ کا تخمینہ بھی حقیقی نہیں ہوتا، اور پھر پورا معاوضہ مل بھی جائے تو مکان بنانا کوئی آسان کام ہے، ایک تعمیری منصوبہ کو زمین پر اتارنے میں برسوں لگ جاتے ہیں، ذہنی کوفت اور پریشانی الگ۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جو اصل مجرم ہے اس کو گرفت میں نہیں لایا جا رہا، گرفتار وہ ہو رہا ہے جس نے نو پور شرما اور جندال کے خلاف آواز اٹھائی، پولیس کی گولی کا شکار وہ ہو رہے ہیں، جو اپنے دستوری حق کا استعمال احتجاج اور مظاہرے کی شکل میں کر رہے ہیں، یہ حق کی آواز دبانے کی مذموم کوشش ہے، ایسا جمہوریت میں نہیں آمریت میں ہوتا ہے کہ حاکم کے زبان سے نکلنے والے الفاظ ہی قانون ہوا کرتے ہیں، ہندوستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے، یہ آمریت کی بد ترین شکل ہے، اور دنیا منتخب حکومت کے ذریعہ سارے قاعدے قانون بالائے طاق رکھ کر آمریت کے وہ نمونے دیکھ رہی ہے جو ہٹلر اور مسولینی کے دور میں دیکھنے کو ملتے تھے۔
ہندوستان کو آمریت کے اس نئے حملے سے نکالنے کے لیے تمام محبان وطن کو سامنے آنا ہوگا، یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے ، اقتدار میں وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کی ساری تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی روایتوں کو کچلنے کے درپے ہیں، ان کے پشت پر آر ایس ایس کی طاقت ہے، اور وہ اس طاقت کے بل پر جو من میں آئے کر گذرنے کو تیار ہیں، ہمارے وزیر اعظم نے اس سارے واقعات وحادثات پر ’’چُب مائی کا روزہ‘‘ رکھ رکھا ہے، ان کی زبان ان مسائل ومعاملات پر نہیں کھلتی اور ان کی خاموشی سے سب کو لگتا ہے کہ ان کی مرضی بھی ان امور میں شامل ہے۔
آمریت پسند لوگ ان کی منشا سمجھ کر اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور سیکولر طبقہ کواس صورت حال سے سخت مایوسی کا سامنا ہے، جب کہ اس ملک کو ایک اور آزادی کی ضرورت ہے اور وہ ہے نفرت بھرے ماحول سے ، آمرانہ کردار سے ، بد عنوانی اور ظلم سے، اس کے بغیر یہ ملک ماضی کی روایت کو باقی نہیں رکھ سکتا۔