سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی افراد ملازمت کرتے ہیں جن میں مزدوری سے لیکر اعلی عہدے بھی شامل ہیں۔ جہاں غیر ملکی افراد کام کرتے ہیں جس کے باعث ایک رپورٹ کے مطابق مقامی نوجوان حالیہ دنوں میں بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔
ریاض : مملکت سعودی عرب نے متعدد شعبوں میں غیر ملکی ملازمین کو سعودی شہریوں سے تبدیل کرنے کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی وزیر برائے انسانی وسائل اور سماجی ترقی، احمد الراجحی نے مملکت کے متعدد پیشوں میں کام کو شہریوں تک محدود کرنے کے منصوبے کے تحت متعدد پیشوں اور سرگرمیوں کو مقامی بنانے کا ایک نیا فیصلہ جاری کیا۔
نئے فیصلوں میں مملکت کے مختلف علاقوں میں سات اقتصادی سرگرمیوں میں لائسنس یافتہ ہوابازی کے پیشوں، آپٹکس کے پیشوں، وقتاً فوقتاً معائنہ کی سرگرمی، پوسٹل سروس آؤٹ لیٹس اور پارسل ٹرانسپورٹیشن، کسٹمر سروس کے پیشے، اور سیلز آؤٹ لیٹس کی لوکلائزیشن شامل تھی۔
عربی روزنامہ اوکاز کے مطابق اس اقدام سے شہریوں کے لیے روزگار کے 33000 سے زائد مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے جس کا مقصد لیبر مارکیٹ میں ان کی شرکت کو بڑھانا اور ملک کے معاشی نظام میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب میں گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے دوران بے روزگاری کی شرح 12 سال کی کم ترین سطح پر گر کر 11 فیصد تک پہنچ گئی۔
مملکت 2030 تک شہریوں میں بے روزگاری کو 7.5 فیصد تک کم کرنا چاہتی ہے، اور حکومت نے 2016 سے معاشی اصلاحات نافذ کی ہیں تاکہ ویژن 2030 کے نفاذ میں لاکھوں ملازمتیں فراہم کی جاسکیں۔
سعودائزیشن پروگرام کے تحت حکام وقتاً فوقتاً کچھ پیشوں اور ملازمتوں کو صرف سعودیوں تک محدود کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ کاروباری صلاحیت کو فروغ دینے اور زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ضوابط میں ترمیم کرنے پر بھی کام کر رہا ہے، اس امید پر کہ اس سے سعودیوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔