اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پرہے، ایمان لانا، اور ایمان کے بعد نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، بعض شرائط وقیود کے ساتھ سب پر فرض ہے، مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، فقیر ہو یا مالدار، سب ایک صف میں ہیں، چونکہ یہ کام سب کرسکتے ہیں، بعض مخصوص حالات میں جو لوگ نہیں ادا کرسکتے ہیں ان کو چھوٹ دی گئی ہے یا اعذار ختم ہونے کے بعد ادائیگی کاحکم دیا گیا ہے۔
زکوٰۃ اور حج سب پر فرض نہیں کیا گیا ہے،کیونکہ ان کا تعلق مال سے ہے، اور سب مال والے نہیں ہیں، پھرجن کے پاس مال ہے، اس کے اوپر زکوٰۃ فرض کرنے کے لیے نصاب کی شرط لگائی گئی اور حج فرض کرنے کے لیے مالداری کے ساتھ استطاعت کی قید لگائی گئی، اس لیے کہ حج میں سفر کرنا بھی ہوتا ہے اور مال بھی خرچ کرنا، اب اگر آدمی بیمارہے، تندرست نہیں ہے تو خود سفر نہیں کرسکتا قید میں ہے تو سفر کی اجازت ہی نہیں۔ تندرست وتوانا اور آزاد ہے لیکن راستہ پرامن نہیں ہے۔
راجح قول کے مطابق عورت کے ساتھ کوئی محرم جانے والا نہیں ہے یا عورت عدت میں ہے، تو بھی سفر ممکن نہیں؛ اس لیے اس پرحج فرض نہیں،سب کچھ موجود ہے، سفر خرچ اور واپسی تک بال بچوں کے نفقہ کی صورت نہیں بنی تو بھی حج کرنا ممکن نہیں اور اللہ رب العزت اپنے فضل سے بندوں پر اسی قدر فرض کرتا ہے جس کی ادائیگی پر وہ قدرت رکھتا ہو، اب قدرت وطاقت، صحت ،مال ودولت اور ہر قسم کی مطلوبہ استطاعت ہو تو اللہ اپنے گھرکی طرف بلاتا ہے، سب کچھ اللہ ہی کا دیا ہواہے، ایسے میں وہ یوںہی بلالے کچھ نہ دے اور کوئی وعدہ نہ کرے تب بھی سرکے بل جانا چاہیے، دوڑنا چاہیے۔
لیکن یہ اللہ رب العزت کا کتنا بڑا فضل اور کرم ہے کہ سب کچھ دے کر کہتا ہے کہ آؤ میرے گھر، احرام باندھو، طواف کرو، سعی کرو، حجر اسود کا استلام کرو، رکن یمانی کو چھوؤ، زمزم پیو، صفا و مروہ کی سعی کرو، عرفہ، مزدلفہ میں وقوف کرو، منیٰ میں رات گذارو، شیطان کو کنکری مارو، قربانی کرو، ہم اس کے بدلے تمہیں جنت دیںگے،وہ جنت جس کے لیے تم پوری زندگی ہماری عبادت کرتے رہتے ہو، اس پوری زندگی کا مطلوب صرف ایک حج مقبول میں تمہیں دیںگے، تم نے اس سفر میں کوئی غلط کام نہیں کیا، جھگڑا نہیں کیا، شہوانی خواہشات سے مغلوب نہیں ہوئے توایسے پاک صاف ہوکر گھر لوٹوگے جیسے آج ہی تم ماں کے پیٹ سے معصوم پیداہوئے ہو، اس کے علاوہ اور بھی انعامات تمہیں ملیں گے۔
تمہارے اندر دنیا سے بے توجہی پیدا ہوجائے گی، آخرت کی فکر اور رغبت تمہاری زندگی کا حصہ بن جائے گی، تم نے جومال خرچ کردیا، وہ تمہارے لیے فقر و فاقہ کا باعث نہیں بنے گا؛ بلکہ اللہ تعالی اپنے فضل سے تمہیں اور دے گا، غنی بنادے گا، اتنا دے گا کہ بے نیاز ہوجاؤگے، تمہیں ہر قسم کی عصبیت اور امتیاز کی بیماری سے پاک کردے گا، ریا، نمود و نمائش کا جذبہ ختم ہوجائے گا،اللہ تعالی کے اس اعلان فضل ونعمت کے بعدبھی دوسرے ارکان کی ادائیگی کی طرح حج میں جانے میں کوئی کوتاہی کرتا ہے تو یہ بڑی محرومی اور بدبختی کی بات ہے۔
یقیناً حج زندگی میں ایک بار فرض ہے، لیکن فرض ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتا ہے اور کیا معلوم اگلی زندگی کیسی ہوگی، ابھی اللہ کے انعام کی قدر نہیں کیا اور بعد میں مال ہی جاتا رہا یا صحت ہی باقی نہ رہی تو یہ فرض رہ جائے گا، اس لیے انتظار کرنا کہ ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں تب اللہ کے بلاوے پر لبیک کہیں گے اور سب گناہ سے رک جائیںگے، یہ شیطان کا بہلاوا ہے کہیں اس کے پہلے ہی بلاوا آگیا اور کون جانتا ہے کہ کب بلاوا آئے گا، مرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اور کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کس وقت ملک الموت اپنا کام کرجائیں گے اس لیے جو زندگی دی گئی ہے اور جومال و دولت ،صحت وعافیت فراہم ہے،اس کی قدر کرنی چاہئے اور بلا تاخیر اللہ کے اس بلاوے پر دوڑ جانا چاہیے۔
ہمارے بعض بھائی اس اہم رکن کی ادائیگی کواس لیے ٹالتے ہیں کہ بچی کی شادی کرنی ہے حج الگ فرض ہے اور بچی کی شادی الگ ذمہ داری ہے؛ خصوصاًاس شکل میں جب کہ لڑکی ابھی سیانی نہیں ہوئی ہے، ذمہ داری ہی اُس کام کی نہیں آئی،ایسے میں کہا کی عقل مندی ہے کہ ایک فرض کوآئندہ والی ذمہ داری کے نام پر ٹالا جائے۔یہی حال مکان کی تعمیر،زمین کی خریدگی، اور دوسرے گھریلو معاملات کا ہے، جن کے نام پر شیطان بہکاتا رہتا ہے اور حج مؤخر ہوتا رہتا ہے، اور پھر وہ وقت بھی آجاتا ہے کہ ادائیگی کی شکل باقی نہیں رہتی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس کوئی عذر نہ ہو، استطاعت بھی ہو، سخت حاجت بھی درپیش نہ ہو، ظالم بادشاہ اور مرض نے بھی نہ روکا ہو اور وہ حج کے بغیر مرگیا تو یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اللہ کی پناہ کس قدر سخت وعید ہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
حج کے سفر کی تیاری کا زمانہ آگیا ہے اللہ کے اس بلاوے پر دوڑنے کے لیے تیار ہوجائیے، نیت کو خالص کیجئے،گناہوں سے توبہ کیجئے، اگر والدین آپ کی خدمت کے محتاج ہوں تو ان سے بھی اجازت لیجئے، امانت ووصیت سے فارغ ہولیجئے، حقوق کی ادائیگی پر توجہ دیجئے، اچھے رفیق سفر کا انتخاب کیجئے، حج کے مسائل سیکھئے، حج کمیٹی والے تربیتی کیمپ لگواتے ہیں، اس کی حاضری کو یقینی بنائیے کہ یہ بھی حج کے مسائل سیکھنے کا اچھا ذریعہ ہے، جلدی کیجئے، صحت و دولت کوغنیمت جانیئے ، دوڑیئے، تیزی دکھائیے، اپنے ساتھ اپنے دوستوں کو بھی تیار کیجئے، آپ کی رفیق حیات دکھ سکھ میں آپ کے ساتھ رہتی ہیں، اللہ نے ان پر بھی حج فرض کیا ہے اور نہ بھی کیا ہو اور استطاعت ہو تو ضرور لے جایئے، اس لیے کہ وہ اپنے سفر میں محرم رفیق سفرکی محتاج ہوتی ہیں اور خدا معلوم آئندہ انہیں کوئی محرم ملے یانہ ملے، اس لیے حق رفاقت کاتقاضہ ہے کہ اللہ کی بندیوں کو بھی اس سفر میں ساتھ لیجئے، تاکہ وہ بھی اللہ تعالی کے انعامات واکرام سے فائدہ اٹھاسکیں۔
ان خیالات کی تشہیر بھی کیجئے،لکھنے کی صلاحیت ہوتو مضمون کے ذریعہ ،بولنے کی صلاحیت ہو تو تقریر کے ذریعہ، مجلسی گفتگو میں ممتاز ہوں تو اسے موضوع گفتگو بنائیے، ائمہ حضرات مساجد کے منبر و محراب سے بھی اسلام کے اس اہم رکن کی ادائیگی کے لیے ترغیب دیں،تاکہ مسلمانوں میں جو سستی پائی جاتی ہے وہ دور ہو۔ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا بھی اس خیرکے کرنے والے کی طرح ہے یعنی وہ بھی ثواب میں برابر کا شریک ہوگا۔اس لیے اس پیغام کو ہرسطح پر عام کیجئے اور اجرکے مستحق ہوجائیے، نسخہ آسان بھی ہے اور قابل عمل بھی ہے۔
اس سفر محبت وعبادت سے آپ لوٹ کر آئیں گے تو اپنے ساتھ جنت کا تحفہ اور گناہوں سے پاک ہونے کا مژدہ لے کر لوٹیں گے، حج کے اس سفر محبت وعبادت میں آپ نے کعبہ کی تجلیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، مکہ کی بابرکت سرزمین منی، عرفہ، مزدلفہ، کے وقوف اور جمرات کی رمی نے آپ کے نفس امارہ کو مار ڈالا ہوگا، حب رسول سے سرشار، مسجد نبوی میں ادا کی گئی کم وبیش چالیس وقت کی نمازوں اور مواجہہ شریف کے در ود وسلام نے آپ کے اندر جو روحانیت پیدا کی ہے، اس کو پوری زندگی باقی رکھیے۔
حج کو بدنام نہ کیجئے، کھجور اور زمزم کے ساتھ وہ تحفہ بھی بانٹیے گا؛ جس میں آپ کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑا ہے، یہ و ہ منافع ہیں جن کو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، ان میں سے ایک اللہ پر توکل اور اعتماد کا ہے، آپ کا یہ سفر اللہ کے بھروسے ہی پورا ہے، چلنے کی سکت نہیں تھی، لیکن آپ نے طواف وسعی اللہ بھروسے کر لیا ہے، آپ نے وہاں ساری دنیا سے آئے الگ الگ مسلک اور مشرب کے لوگوں کو دیکھا ، سب اپنے اپنے طریقے پر عبادت کرتے ہیں، کوئی کسی کو بُرا بھلا نہیں کہتا، فروعی مسائل میں اختلاف کے باوجود اتحاد امت کا یہ بڑا سبق حاجی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔
ہندوستان کے پس منظر میں خصوصیت سے اس کا تذکرہ کرنا چاہیے، اس کے علاوہ تحمل اور بر داشت جن کا مظاہرہ قدم قدم پر آپ نے کیا اور دوسروں کو کرتے دیکھا ، اسے بھی لوگوں میں بانٹیے، تعصب سے پاک سماج اور خالص اللہ کی عبادت کا پیغام بھی حج کا خاص تحفہ ہے، جو اللہ کی میزبانی میں آپ کو عطا ہوا ہے، حج کے اس سفر کا بڑا فائدہ انسان کے اندر سے امتیاز کی بیماری کو ختم کرنا ہے، سلے ہوئے کپڑے کے ڈیزائن سے امتیاز پیدا ہوتا ہے، احرام کے دوبغیر سلے ہوئے کپڑے، کفن کی طرح پہن کر تمام عازمین میں یکسانیت پیدا کردی گئی۔
لبیک کا ترانہ عربی میں پڑھ کر زبان کا امتیاز ، منی عرفہ کے خیموں میں ٹھہر کر مکان کا امتیازختم کرایا گیا اور مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے رات گذار کر ایسے غریبوں کی پریشانیوں کا احساس جن کے سر پر چھت نہیں ہے، آپ نے کیا ہے، اس احساس کی قدر کیجئے، خود بھی عمل کیجئے اور دوسروں تک بھی پہونچائیے۔