آفرین فاطمہ کون ہے؟
حالات حاضرہ

آفرین فاطمہ کون ہے؟

ملک بھر میں 10 جون بروز جمعہ نماز کے بعد بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے اسی طرح اترپردیش میں بھی کئی مقامات پر احتجاج کیا گیا، جہاں یہ تشدد میں تبدیل ہوگیا اسی دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوگئی جس میں پولیس سمیت کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں تین سو سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا اسی تشدد کے الزام میں پریاگ راج کے مشہور سماجی کارکن جاوید محمد عرف جاوید پمپ کو گرفتار کیا گیا اور ان کا گھر بھی منہدم کردیا گیا۔ وہیں پریاگ راج ایس ایس پی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ تشدد معاملہ میں جاوید احمد کی بیٹی آفرین فاطمہ بھی سازشی ہیں اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

جاوید محمد عرف جاوید پمپ کی بیٹی آفرین فاطمہ کا نام سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ کئی لوگ ان کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ مخالفین بھی ایک بار پھر شاہین باغ، جے این یو، جامعہ، سی اے اے-این آر سی کے مسائل پر بات کر رہے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ آفرین فاطمہ کون ہے اور ان کا جاوید عرف پمپ سے کیا تعلق ہے؟

آفرین فاطمہ ایک سماجی کارکن ہے اس سے پہلے بھی سرخیوں میں آچکی ہیں وہ متعدد ایشوز بالخصوص مسلمانوں سے متعلق مسائل کے لئے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے سرخیوں میں رہیں۔ آفرین فاطمہ پہلی بار اس وقت سرخیوں کی زینت بنی تھیں جب انہوں نے جے این یو کے طالب علم نجیب کے لئے آواز بلند کی تھی۔

آفرین کا تعلق ریاست اترپردیش کے ضلع پریاگ راج سے ہے۔ ان کے والد جاوید احمد سماجی کارکن کے ساتھ ساتھ ایک بزنس مین ہیں۔ ان کے خاندان میں والدین کے علاوہ دو بھائی اور دو بہن ہیں۔ آفرین نے ابتدائی تعلیم پریاگ راج میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں سے انہوں نے اپنی اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی سفر کا بھی آغاز کیا۔ انہوں نے اے ایم یو سے لنگوسٹک سے بی اے آنرس سے کیا۔ اس دوران انہوں اے ایم یو کی سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور ایک کامیاب اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں، انہوں نے اے ایم یو کے ویمنس کالج میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا جس میں انہیں نمایاں کامیابی ملی اور وہ ویمنس کالج کی صدر منتخب ہوگئی۔

صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے لڑکیوں کے حقوق کے لئے آوازیں بلند کیں، اے ایم یو میں لڑکوں کو ہاسٹل سے باہر نکلنے کا وقت لڑکوں کے مقابلہ بہت کم تھا، جس کے خلاف انہوں نے آواز بلند کی اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بات پر راضی کرلیا کہ لڑکیوں کو ہاسٹل سے نکلنے کے اوقات میں توسیع کی جائے۔

سال 2019 میں ملک کی مشہور مصنفہ اروندھتی رائے اور صحافی عارفہ خانم کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا لیکن اس وقت عارفہ خانم کے ایک ٹویٹ کو لیکر طلبہ میں کافی ناراضگی تھی، طلبہ نے عارفہ خانم کی مخالفت کرتے ہوئے شامیانہ پھاڑنا شروع کردیا۔ اس دوران آفرین فاطمہ موقع پر پہنچی اور مشتعل طلبہ کی جانب اپنا دوپٹہ بڑھاتے ہوئے کہا، ‘اگر تم میری عزت سے کھیلنا چاہتے ہو تو میرا دوپٹہ پھاڑ دو، شامیانہ نہیں’۔ جس کے بعد طلبہ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا رخ کیا۔ جہاں انہوں نے ستمبر 2019 کے انتخاب میں حصہ لیا۔ اسکول آف لینگویج اینڈ کلچرل اسٹڈیز ہے، جس سے وہ کونسلر کے عہدے کے لئے منتخب ہوئیں اور ابھی بھی وہ طلبہ یونین کی کاونسلر ہیں۔

اسی سال دسمبر میں بی جے پی حکومت نے شہریت ترمیم قانون کو منظور کردیا، جس کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا۔ ملک کی قومی دارالحکومت دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین نے دھرنا دے دیا۔ شاہین باغ کی خواتین کا احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے ملک کئی حصوں میں پھیل گیا اور ملک میں کئی شاہین باغ بن گئے۔

ان مظاہروں میں بھی آفرین فاطمہ پیش پیش رہی اور حکومت سے سخت سوال کئے۔ انہوں نے سی اے اے کے خلاف دہلی سے لیکر پریاگ راج تک اپنی آواز بلند کی۔ اس مظاہرے میں وہ مسلم خواتین کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہیں۔ اس دوران انہیں حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس دوران آفرین کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ انہیں سپریم کورٹ کے ورکنگ اسٹائل پر بھروسہ نہیں ہے۔ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے اس ویڈیو کو ٹویٹ کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ آفرین مسلمانوں کی خود شناسی پر ان کے خیالات بہت پختہ ہیں۔ اپنے جلسوں میں آفرین کو کئی بار یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ میں ایک عورت اور مسلمان ہوں۔ مجھے اسی طرح پہچانا جانا چاہیے۔ اے ایم یو کے سابق طالب علم عمار کا کہنا ہے کہ آفرین کو صرف ہندو مسلم کے آئینہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ وہ خواتین کے وجود، ان کے حقوق، ان کی شناخت کے لیے لڑنے والی عورت ہے۔

آفرین فاطمہ ایک با حجاب خاتون ہیں اور حجاب کو لیکر وہ کافی سنجیدہ اور پابند ہیں۔ ریاست کرناٹک میں حجاب کو معاملہ سرخیوں میں آیا تھا۔ اس وقت انہوں نے فرٹینیٹی مومنٹ کے ساتھیوں کے ساتھ مظاہرہ کرنے والی باحجاب طالبات سے بات کرنے کرناٹک سے ادوپی اور مینگلورو گئیں تھیں اور انہوں نے وہاں طلبا سے بات چیت کی اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔