ناموس رسالت ﷺ
اسلامی مضامین

ناموس رسالت ﷺ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی تمام نبیوں کے سردار اور رسولوں میں سب سے افضل ہیں، قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، ہم نے رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ، چنانچہ آپ کی حیثیت انبیاء ورسل کے سلسلۃ الذہب میں سید الانبیاء والمرسلین، خاتم النبین ، محبوب رب العالمین کی ہے، یہ مقام ومرتبہ کسی اور کو حاصل نہیں۔

ہمارے لیے سارے انبیاء ورسل قابل اکرام واحترام اور ان پر اتنا یقین رکھنا ضروری ہے کہ وہ سب اللہ کے رسول ہیں، ایمان مفصل میں ہمیں یہی سکھایا گیا ہے، اس اعتبار سے سب کے ناموس کی حفاظت ایمانی واسلامی تقاضہ ہے، ہمیں تو یہ بھی سکھایا گیا کہ جو لوگ اللہ کے علاوہ کی پوجا کرتے ہیں ان کو بھی بُرا بھلا نہ کہو، کیوں کہ تمہارے بُرا بھلا کہنے کی وجہ سے دشمنی اور جہالت میں وہ لوگ اللہ کو بُرا بھلا کہنے لگیں گے۔

چوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وعظمت، محبت وعقیدت اور ان پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ ہماری ایمانی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے، اس لیے مسلمان آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے سامنے بچھ جاتے ہیں اور آپ کے در پر درود وسلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، بلکہ مدینہ جا کر وہیں مرجانے کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ جذبہ قابل قدر ہے لیکن ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اگر کوئی سر پھرا ناموس رسالت پر حملہ کرے تو ہم اس کے اس حرکت قبیحہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور بتادیں کہ ہمارے لیے یہ نا قابل برداشت ہے۔ ایسے لوگوں پر دنیا وآخرت میں لعنت کے ساتھ دردناک عذاب ہے۔

اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ ورسول کو تکلیف پہونچاتے ہیں، دنیا وآخرت میں ان پر لعنت اور درد ناک عذاب ہے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان والوں کا جو رشتہ ہے اس کا ذکر سورہ احزاب میں اللہ رب العزت نے کیا ہے ، فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مؤمنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات ان کی مائیں ہیں۔

ایک دوسری آیت میں آپ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا گیاکہ ہم نے تمہیں شاہد اور خوشی اور ڈرسے آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا گیا،تاکہ تم لوگ اللہ رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو، قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہا درجہ کی تعظیم وتوقیر کا حکم دیا گیا ہے۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ تعظیم وتوقیر کا یہ حکم صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی حیات تک محدود نہیں ہے، بلکہ مفسرین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وصال کے بعد بھی آپ کی تعظیم وتوقیر مسلمانوں پر واجب ہے، اور جو لوگ بے ادبی اور گستاخی کے مرتکب ہوں گے ان کے اعمال صالحہ بے خبری میں برباد ہو جائیں گے، اور جن لوگوں نے آداب کو ملحوظ رکھا، ان کے لیے بخشش اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔

علامہ ابن کثیر ؒنے سورۃ حجرات کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؒ نے دو آدمیوں کو مسجد نبوی میں بلند آواز سے بات کرتے ہوئے پایا تو فرمایا کہ تم کہاں ہو، کچھ معلوم ہے، دریافت کیا: کہاں سے آئے؟ بتایا کہ طائف سے، فرمایا :اگر تم مدینہ کے ہوتے تو بلند آواز سے مسجد نبوی میں بات کرنے پر تمہیں سخت سزا دیتا۔

ابن کثیرؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ قبر اطہر کے پاس آواز بلند کرنا ویسے ہی آج بھی ممنوع ہے، جیسا ظاہری حیات نبوی میں تھا، اللہ کو تو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ اس کے محبوب کی شان میں ذو معنی الفاظ استعمال کیے جائیں، ایک معنی اچھا ہو اور دوسرا کم تر اور حقیر ثابت کرتا ہو، تو اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کرنا ممنوع ہے۔

اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا : ایمان والو ’’راعنا ‘‘ مت کہا کرو ’’انظرنا‘‘ کہا کرو، اس لیے کہ راعنا اگر تھوڑا دبا کر کہا جائے تو وہ ’’راعینا‘‘ ہوجاتا ہے ، ہمارے چرواہے کے معنی میں ، فقہاء نے لکھا ہے کہ ناموس رسالت پر حرف زنی کرنے والوں کی سزا اسلامی حکومت میں قتل ہے، خود فتح مکہ کے موقع سے عام معافی کے باوجود جن چار لوگوں کو قتل کیا گیا وہ سب کے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے تھے۔