ہمارے ملک ہندوستان کا شمار پوری دنیا میں عظیم ترین جمہوری ملک کے طور پر ہوتا ہے، جمہوریت کی بنیادیں یہاں مضبوط ہیں اور اس کو مضبوطی عطا کرنے میں مقننہ (پارلیمنٹ، راجیہ سبھا اور اسمبلیاں)، عدلیہ (لُوَر، اَپر، ہائی اور سپریم کورٹ)، انتظامیہ (افسران ، وزراء اور بیروکریٹ)، اور ذرائع ابلاغ (پرنٹ اور الکٹرونک میڈیا) کا بڑا ہاتھ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان چاروں کو جمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے، ان میں سے کوئی ایک کمزور ہوجائے تو جمہوریت کمزور ہو گی اور چاروں کمزور پڑجائیں تو جمہوریت کی عمارت کو منہدم ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔
آزادی کے بعد ۱۹۵۰ء میں دستور ہند کے نفاذ کے وقت اس ملک کو سیکولر جمہوریہ قرار دیا گیا، اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھی، وہ اس دستور کے پابند تھے، انہوں نے غلام ہندوستان کو دیکھا تھا جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تھا، حکمراں پارٹی پر مسلمانوں کا دبدبہ باقی تھا اور کوئی فیصلہ لیتے وقت حکومت بار بار سوچتی تھی کہ اس کا اثر رائے عامہ پر کیا پڑے گا اور انتخابی سیاست میں رائے دہندگان کا رخ اس فیصلے کے بعد کدھر ہوگا۔
پھر ہوا یہ کہ دھیرے دھیرے مقننہ میں ایسے لوگ آگیے جن کی ذہنیت فرقہ واریت سے مسموم تھی، اور جن کے دلوں میں خدمت کے جذبہ کے بجائے مال ودولت کے حصول کا جذبہ پروان چڑھ چکا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ جمہوریت کا پہلا ستون کمزور ہو گیا، ممبران کی خرید و فروخت سے لے کر سوالات پوچھنے کے لیے رشوت لینے تک کے واقعات سامنے آئے، اس خرید وفروخت کی وجہ سے حکومتیں بنتی اور گرتی رہیں، آیا رام گیارام کی مثل عام ہو گئی۔
سیاسی گلیاروں میں ہو رہی اس بد عنوانی نے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہونچایا اور عوام میں سیاسی لیڈران کی پکڑ ہی نہیں قدر بھی کم ہوئی، عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد جما ہوا تھا، اور ہر ظلم کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے لوگوں کی نظر ادھر جاتی تھی، لیکن بابری مسجد حقیت کے معاملے میں زمین کی تقسیم، جسٹس لویا کی موت اور عدالت عظمیٰ کے چار ججوں کے ذریعہ تاریخ میں چیف جسٹس کے رویہ پر ہونے والی پہلی پریس کانفرنس میں ججوں کے ذریعہ یہ اعلان کہ جمہوریت خطرے میں ہے نے عوام کے ذہن ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ان معاملات کی وجہ سے جمہوریت کے اس دوسرے ستون پر بھی زوال کے آثار دِکھنے لگے ہیں، خصوصا اس صورت میں جب عدالت میں بحالیاں قابلیت کے بجائے پارٹی وفاداری کی بنیاد پر کی جا رہی ہوں۔
جمہوریت کے تیسرے ستون انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ فائل کو جس قدر مضبوطی سے آپ دوڑانا چاہتے ہیں، رشوت کے اتنے مضبوط پہیے کا استعمال کرنا ہوگا، اگر رشوت کا پہیہ نہ لگایا گیا یا مضبوط انداز میں نہیں لگایا گیا تو وہ فائل دفاتر میں سرک بھی نہیں سکتی ہے، کوئی کام کرانا ہے توشُبِدھا شلک (رشوت) دینا ہی ہوگا، اس طرح تیسرا ستون بد عنوانی میں کمر تک نہیں گردن تک ڈوب کر رہ گیا ہے۔
ان معاملات ومسائل نیز عوام کی پریشانیوں کو سرکاری محکموں تک پہونچانے کے لیے ذرائع ابلاغ چوتھا ستون تھا، اخبارات، ٹیلی ویزن وغیرہ کے ذریعے آواز اٹھانے پر حکومت کے کان کھلتے تھے اور اس کے نتیجے میں پریشانیاں دور ہوتی تھیں، لیکن اب ذرائع ابلاغ پرنٹ اور الکٹرونک میڈیا بھی حکمراں جماعت کے ہاتھ مال ودولت کی ہوس میں بک چکے ہیں، اس لیے اینکر، ٹی وی کے اناؤنسر فرقہ واریت پھیلانے، اقلیتوں کے مسائل کو دبانے اور حکومت کو شاباشی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
رائے عامہ ذرائع ابلاغ ہی بیدار کرتے تھے، ان کے بک جانے سے ملک کے عوام کے ذہن وسوچ کو صحیح رخ نہیں مل پارہا ہے، جس کی وجہ سے جمہوری قدروں کا جنازہ نکلتا چلا جا رہا ہے، گویا خطرات کے بادل دین پر بھی منڈلا رہے ہیں مسلمان ایک زندہ قوم اور بیدار امت ہے، اس کے لیے مایوسی اور اللہ کی رحمت سے نا امیدی کفر کی طرح ہے، ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ سکتے، ان حالات کو بدلنے کے لیے ایمانی جذبے، اسلامی حوصلے اور پوری قوت کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی، اللہ کا وعدہ ہے کہ انسان کو وہ چیز مل جاتی ہے، جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔