مرکز میں بھاجپا کی حکومت اور مودی کے وزیر اعظم بنے ہوئے آٹھ سال مکمل ہو چکے ہیں، ان آٹھ سالوں کو ہندوستانی جمہوریت کی تباہی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، راج کوٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ میں نے ان آٹھ سالوں میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ہندوستان کے شہریوں کا سر شرم سے جھکے، مودی جی کی شبیہ ملک اور بیرون ملک میں جملہ باز اور لمبا پھینکنے کی رہی ہے، اس پھینکنے میں حقائق سے دور باتیں کہنے کی ان کی عادت پُرانی ہے، اس لیے عام لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جو کچھ’’ من کی بات‘‘ میں کہیں یا تقریر کریں تو سامعین کو اپنی معلومات کی روشنی میں اس کا موازنہ اور مقابلہ کر لینا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس کو بعینہ نقل کر دیں اور اہل علم وتحقیق اور مؤرخین آپ کا مذاق اڑانے لگیں۔
مودی جی نے ان آٹھ سالوں میں جمہوری اقدار کو توڑنے اور کمزور کرنے کا جو کام کیا ہے، فرقہ پرست طاقتوں نے نفرت کی کھیتی کو جس طرح پروان چڑھایا وہ ان کے دور اقتدار کی خاص بات ہے، ماب لنچنگ اور دوسرے معاملات وواقعات پر ان کی خاموشی اور زبان بندی نے فرقہ پرستو ں کے حوصلے بلند کیے اور سڑک سے لے کر ٹرینوں تک میں نفرت کے سودا گروں نے سفر کو غیر محفوظ اور پریشان کن بنا دیا، جو مقیم ہیں ان کے گھروں پر بلڈوزر چل رہا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مودی جی کے دور میں ہی کالے دھن کو واپس لانے اور پندرہ، پندرہ لاکھ ہر شہری کے کھاتے میں ٹرانسفر کی بات ہوئی تھی، اس لمبے جملے پر تو کام نہیں ہوا، لیکن کالے دھن کو بر آمد کرنے کے نام پر جو نوٹ بندی کا کام کیا گیا، اس نے چھوٹے صنعت کاروں، مزدوروں اور غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی،کتنی بچیوں کے ہاتھ پیلے ہونے سے رہ گیے، مار کیٹ سے رقم غائب ہو گئی تو طلب ورسد (ڈیمانڈ اور سپلائی) کا توازن بگڑ گیا اور بڑی تعداد میں لوگ بھوک مری کے شکار ہوئے۔
لطیفہ یہ ہے کہ ایک ہزار کے نوٹ بند کرکے دو ہزار کے نوٹ چھاپے گیے تاکہ کالے دھن کو چھپانے میں سہولت ہو، اب یہ اس طرح چھپالیا گیا کہ اس کی صورت بھی نظر ہیں آتی، نئے ڈیزائن اور نئے سائز کے نوٹ چھاپے گیے، لیکن وہ اپنی خوبصورتی اور جمالیات میں پُرانے نوٹوں کے مقابل انتہائی بھدے اور بد نما دکھائی دیتے ہیں۔
مودی جی کے دور میں ہی کورونا کی وبا آئی اور اس سے نمٹنے کے جو انتظام کیے گیے،تالی اور تھالی پیٹی گئی، چراغاں کرکے فضائی آلودگی میں اضافہ کیا گیا، اس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ، سڑکوں پر لوگ گھسٹ گھسٹ کر مر گیے، ان میں بڑے بوڑھے ، عورت مرد سبھی شامل تھے، دوائیوں کی قیمت آسمان کو پہونچ گئی، آکسیجن کے سلنڈر بازار سے غائب ہو گیے، اور لوگ تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور ہوئے، آخر رسومات کی ادائیگی میں جو پریشانی ہوئی اور جس طرح انسانی لاشوں کو کتے گیدر اور جنگلی جانوروں نے کھایا ، دریا میں جس طرح بہایا گیا وہ انسانیت کو شرمسار کرنے کے لئے کافی تھا۔
مودی جی کے دور میں جی اس ٹی نے جس طرح رلایا، پیاز اور ٹماٹر کی چھوڑئیے، پٹرول، ڈیزل اور غذائی اجناس کے دام جس تیزی سے بڑھے اس کی کوئی دوسری نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی ، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
مودی جی کے دور میں ہی چین کی فوجیں ہمارے ملک میں گھس آئیں اور ایسا ۱۹۶۲ء کے بعد پہلی بار ہوا ، چین ایک پل بھی بنا رہا ہے اور سٹلائٹ سے لی گئی تصویرکی مانیں تو بڑے علاقے پر اس کا قبضہ آج بھی ہے، یہ وہ معاملات وواقعات ہیں، جن کو پڑھ کر اور دیکھ کر ہر ہندوستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
بے روزگاری جس طرح بڑھی ہے اس سے نوجوانوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے، اس کے باوجود مودی جی دعویٰ کررہے ہیں کہ کسی شہری کا سرشرم سے نہیں جھکا تو اسے بے شرمی کی انتہا کہنا چاہیے۔