ملک بھر میں ان دنوں فرقہ پرست عناصر کی جانب سے مساجد اور درگاہوں پر دعوے کیے جارہے ہیں کہ مندر توڑ مساجد اور درگاہوں کو تعمیر کیا گیا، بابری مسجد، متھورا۔کاشی عیدگاہ، گیان واپی مسجد، بھوپال کی تاریخی جامع مسجد، کرناٹک میں جمعہ مسجد، تاج محل، درگاہ اجمیر شریف پر دعوے کیے گئے ہیں کہ انہیں مندر توڑ کر بنایا گیا اور اب مغربی بنگال کی تاریخی قدیم ادینہ مسجد پر انتہا پسندوں کی جانب سے دعوی کیا جارہا ہے کہ اس جگہ پہلے مندر موجود تھا۔
بنگال کے ایک تاریخی مسجد پر ہندو انتہا پسندوں اور بی جے پی کی جانب سے مندر ہونے کا دعوی کیا جارہا ہے۔ ادینہ مسجد بنگال کے مالدہ کے گزول تھانہ علاقے میں موجود ہے۔تاریخی مسجد ہونے کی وجہ سے یہ مسجد سیاحتی مرکز بھی ہے جہاں ہر مذہب کے لوگ آتے ہیں۔اس مسجد کی تعمیر بنگال سلطنت کے الیاس شاہی خاندان کے دوسرے سلطان سکندر سلطان کے دور میں ہوئی تھی۔ ایک زمانے میں ادینہ مسجد بر صغیر کی سب سے بڑی مسجد تھی۔
بنگال کے بی جے پی رہنما رتیندر بوس نے اس مسجد پر دعوی کیا ہے کہ آدیناتھ مندر کو منہدم کرکے اس مسجد کو تعمیر کیا گیا تھا۔مالدہ کے مقامی ایم ایل اے چمنوئے دیو برمن اور دیگر رہنماؤں نے ادینہ مسجد کا دورہ بھی کیا اور دعوی کیا ہے کہ مسجد کے دیواروں کے نقش و نگار سے پتہ چلتا ہے کہ مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی ہے۔ مسجد کے بیرونی دیواروں پر ہاتھیوں اور رقص کرتی ہوئی کچھ منظر کے نقش و نگار ہیں جن کے متعلق مورخین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ معماروں نے قبل از اسلام بنائے گئے پتھروں کا استعمال کیا ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں ان دنوں فرقہ پرست عناصر کی جانب سے مساجد اور درگاہوں پر دعوے کیے جارہے ہیں کہ مندر توڑ مساجد اور درگاہوں کو تعمیر کیا گیا، بابری مسجد، متھورا۔کاشی عیدگاہ، گیان واپی مسجد، بھوپال کی تاریخی جامع مسجد، کرناٹک میں جمعہ مسجد، تاج محل، درگاہ اجمیر شریف پر دعوے کیے گئے ہیں کہ انہیں مندر توڑ کر بنایا گیا اور اب مغربی بنگال کی تاریخی قدیم ادینہ مسجد پر انتہا پسندوں کی جانب سے دعوی کیا جارہا ہے کہ اس جگہ پہلے مندر موجود تھا۔