بدنامی کا ازالہ اور قومی تعمیر و ترقی
متفرق مضامین

بدنامی کا ازالہ اور قومی تعمیر و ترقی

گوناگوں خصوصیات کے حامل ہمارے ملک ہندوستان کی ریاست اترپردیش کا ایک معروف شہر ہے مظفرنگر۔ اسی شہر کی ایک نوجوان علمی شخصیت ہیں جناب سید محمد انس (موبائل: 9899511699). انس صاحب ’بِیس فائونڈیشن‘ (BEES Foundation) کے تحت علمی، خصوصاً چھوٹے بچوں کی تعلیم کے اہم کام سے خود کو وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ ما شاء الله، ان کی جدوجہد قابل ستائش ہے۔ انہوں نے مندرجہ ذیل دو فکری اقتباسات وہاٹس اپ پر ارسال (post) کئے ہیں :
(1) کھلاڑی کا اگر تُکا (fluke) بھی لگتا ہے تو لوگ اس کو شاٹ (shot) سمجھتے ہیں، اور اناڑی کے شاٹ کو اکثر تکا سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال بدنام انسان/قوم کا ہوتا ہے۔
(2) آپ اپنی قوم کی کتنی بھی صفائی دیں یا اچھا بتانے کی کوشش کریں کوئی دھیان نہیں دے گا، جب تک اِمج میں سدھار نہ ہو۔

مذکورہ بالا اقتباسات میں مجھے رہنمائی کی روشنی نظر آئی، اور اسی لیے میں نے بھی اس پوشیدہ رہنمائی کی مزید وضاحت کرنے کی غرض سے کچھ لکھنے کا ارادہ کر لیا۔ زیر نظر مضمون میں یہی واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ معاشرے میں وقت کے ساتھ جاری و ساری ہو جانے والی اپنی شخصیت کی تصویر یا عکس (image) زندگی میں کتنا زیادہ اہم ہوتا ہے، اور اس کو کس طرح مکروہ ہونے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ ادراک حاصل کرنے کی سعئی بھی کی جارہی ہے کہ کیا ایک بار اِمج خراب ہوجانے کی صورت میں اس کا دوبارہ درست (revival) کیا جانا ممکن ہے؟

انسان کے قول و فعل میں تضاد لوگوں کی نظر میں اس کی شخصیت کے متعلق نیک رائے (noble image) بننے اور مستحکم ہونے میں مانع ہوجاتا ہے۔اگلی سطور میں بیان کی گئی کہانی ہر اُس عورت یا مرد نے اپنے بچپن کے زمانے میں ضرور پڑھی یا سنی ہوگی جس نے کبھی اسکول کی جانب اپنے قدم بڑھائے ہیں:

اپنے گاؤں کی سرحد پر ایک نوجوان گڈریے (shepherd) نے ازراہ دل لگی (fun) بھیڑیا، بھیڑیا (wolf) کی صدا بلند کی۔ اس کی اور اس کے ریوڑ (herd) کی حفاظت کی غرض سے گاؤں کے لوگ بڑی تعداد میں اس کی مدد کے لیے دوڑ پڑے۔ لوگوں کو وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اس کا مذکورہ فعل سنجیدگی نہیں بلکہ مذاق کا ایک معاملہ تھا۔ لوگ اس کو ملامت کرتے ہوئے واپس آگئے۔ چوں کہ اس چرواہے نے ہنسی- مذاق اور مزاحیہ طرز گفتار کو اپنے مزاج کا حصہ بنالیا تھا، اس لیے وہ گاہے بگاہے بھیڑیے کا شور مچا کر گاؤں کے لوگوں کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ اکثر و بیشتر لوگ دھوکا کھا کر اس کے پاس مدد کے لیے پہنچ جاتے اور شرمندگی محسوس کیا کرتے تھے۔ چند دن کے بعد اس کے گاؤں کے افراد کو احساس ہوا کہ جھوٹ بولنا اس کا معمول ہے۔

جب ذاتی مشاہدہ اور تجربات کے بعد لوگوں کے دل و دماغ میں چرواہے کی یہ اِمج (image) مستحکم ہوگئی کہ وہ جھوٹا ہے، اور اس کی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا، تب ہی ایک دن یہ واقعہ رونما ہوا کہ وہاں ایک بھیڑیا سچ مچ وارد ہوگیا۔ وہ زور زور سے بھیڑیا بھیڑیا چلاتا رہا مگر اس کی مدد کے لیے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا۔ بھیڑیے نے کئی بکریوں کو مار ڈالا، کچھ کو زخمی کردیا اور بکریوں کو بچانے کی جستجو میں چرواہا خود بھی زخمی ہوگیا، یہاں تک کہ بھیڑیا ایک بکری کو مونھ میں دبا کر گھسیٹتے ہوئے جنگل میں بھی لے گیا۔ سارے حوادث اور نقصانات کے باوجود ایک باعثِ تسکین اور مبارک کام یہ ہوا کہ مذکورہ چرواہے نے بری عادتوں سے توبہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرلی۔ ”دیر آید، درست آید“.

معاشرے میں ایک کہاوت بڑے پیمانے پر شائع و ذائع ہے: ”بد اچھا، بدنام برا“. ’بد‘ ہونا خود بھی برا ہی ہوتا ہے، مگر یہاں ’بدنام‘ کی نسبت سے بد کو اچھا کہا گیا ہے۔ اگر کبھی کسی وجہ سے کسی شخص کو کسی سماجی برائی سے وابستہ سمجھ لیا جائے تو عام طور پر لوگ اس شخص کو اسی برائی سے جوڑ کر دیکھنے لگتے ہیں اور مزید کسی تحقیق و تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔

مختلف اور متعدد مشکلات سے دوچار ہونا اگر بدنامی کا نتیجہ ہو سکتا ہے، تو نیک نامی (good image) کے ثمرات (fruits) بھی بہت زیادہ ہیں۔ نیک نام افراد (persons of good reputation) کو تو کئی بار ان اچھے کاموں کے لیے بھی شاباشیاں مل جاتی ہیں جو حقیقت میں انہوں نے کئے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ الحمدللہ، تعلیمی زمانہ سے لے کر ملازمت کے زمانے تک میری امج ایک ہونہار طالب علم اور لائق و فائق کارکن کی رہی ہے۔ نیک و صالح اور ذہین و محنتی فرد ہونے کی اچھی پہچان کی وجہ سے مجھے کئی مرتبہ ان اچھے کاموں کے لیے واہ واہی (credit) دے دی گئی جو دراصل کسی اور نے کئے تھے۔ میرے اعتراف اور دخل اندازی کے بعد ہی متعلقہ شخص کو کریڈٹ دیا گیا۔

آخر انسان کی اِمج خراب کیسے ہوتی ہے؟ اس سوال کا بنیادی جواب اس مقولہ کے اندر دریافت کیا جاسکتا ہے کہ ” تھوڑا مزا، لمبی سزا“. یہاں لالچ بھی مزے کا ہی دوسرا نام ہے۔ غور و فکر کرنے والے با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ محفل میں غلط بیانی کے تناظر میں وقتی طور پر واہ واہی لُوٹ کر لطف اندوز ہونے والے اپنی نیک نامی (good reputation) کو ہمیشہ کے لیے مجروح کرلیتے ہیں، حالاں کہ تھوڑا سا صبر و تحمل ان کی اِمج کو خراب ہونے سے بچا سکتا تھا۔ مستقبل بینی کی صفت سے محروم اشخاص بھی اچھی امج کی دولت سے اکثر محروم ہی رہتے ہیں۔ چوں کہ قول و فعل کے نتائج مستقل قریب (near future) یا مستقبل بعید (far future) میں برآمد ہوتے ہیں، اس لیے وقت مقرر تک انتظار کرنا یا بالفاظ دیگر صبر و تحمل کا دامن پکڑے رہنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں میں ضروری صبر و تحمل کی خصوصیت ہوتی ہے یا وہ اپنے اندر اس کی نشونما کر لیتے ہیں وہی وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے بول کر ذلیل و شرمندہ ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔

ایک بڑا افسر بننے کی غرض سے مسابقت کے امتحان میں شمولیت جیسے کسی بھی کام کو کرنے کے بعد اپنے حق میں مثبت نتیجے کی بابت اپنی کارکردگی کے تناظر میں خود اعتمادی کا اظہار اور امید تو کی جاسکتی ہے، مگر وقت سے پہلے اپنی امید کو یقین میں بدل کر اعلان کر دینا بلا شبہ ایک احمقانہ فعل ہے، جو الٹا نتیجہ برآمد ہونے کی صورت میں تا حیات شرمندگی اور رسوائی کا باعث بنا رہ سکتا ہے۔ اس لیے جن لوگوں کے پاس مستقبل کو پڑھنے کی لیاقت نہیں ہوتی ہے وہ نقد (then and there) میں اپنے سارے معاملات سے حاصل ہونے والے اچھے نتائج کا یقین اور اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد بھی شروع کردیتے ہیں۔ امتحان کے نتیجہ (result) کے سرکاری اعلان سے قبل ہی جو افراد اپنے عزیز و اقارب کے درمیان نہ صرف پاس (کام یاب) ہونے کا اعلان، بلکہ شیرینی تقسیم کرنے کا عمل بھی کرنے لگتے ہیں، وہ آنے والے دنوں میں اکثر خفت آمیز صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ جب اس طرح کی احمقانہ حرکتیں کئی مرتبہ ظہور پذیر ہو جاتی ہیں، تب معاشرہ ایسے اشخاص کو شیخی خورہ، جلد باز اور ناسمجھ جیسے مختلف قسم کے متعدد منفی خطابات سے منسوب کر دیتا ہے۔ پھر نہ چاہتے ہوئے بھی اور اپنی ناپسندیدگی کے باوجود ایسے انسانوں کو اپنی بدنامی (bad image) کے بدنما داغ کے ساتھ ہی اپنی بقیہ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔

عام طور پر، یونی ورسٹی ہوسٹل میں رہنے والے طلبہ کی شخصیت ہمہ جہتی رنگوں (versatile) سے آراستہ پیراستہ رہتی ہے، کیوں کہ ان کا اختلاط یونی ورسٹی میں زیر تعلیم مختلف اور متفرق پس منظر سے تعلق رکھنے والے دوسرے طلبہ سے بنا رہتا ہے۔ کیمپس لائف (campus life) کے توسط سے حاصل ہونے والے کثیر فائدوں سے قطع نظر، وہاں کچھ واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو نامبارک تجربات کے طور پر بہت سے طلبہ کی بقیہ زندگی کو ہمیشہ کے لیے غم اور اداسی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ چوں کہ معاشرے میں مصنوعی عظمت اور بڑائی کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس لیے بڑی تعداد میں طلبہ اپنے خاندانی پس منظر اور بہت سے دوسرے معاملات کو بیان کرتے وقت اپنے ساتھیوں پر دھاک (superiority) بٹھانے کی نظر سے بڑی حد تک غلو (exaggeration) سے کام لیتے ہیں۔ چوں کہ انسان رحمانی اطوار کی بہ نسبت شیطانی خصلتوں کو جلد قبول کرتا ہے، اس لیے بیان واقعہ کا ماحول کمزور ہوکر، اس کی جگہ خلافِ واقعہ اور غلط بیانی کے رجحانات اپنی جڑیں جما لیتے ہیں۔ مگر الله تعالیٰ کے تخلیق کردہ کائناتی قوانین کے تحت غلط بیانی ایک دن افشا(disclose) ہوجاتی ہے، اور وہی وہ دن ہوتا ہے جب کسی شخص کی نیک نامی ہمیشہ کے لیے بدنامی کا شکار ہو جاتی ہے۔

” تمام تعریفیں الله تعالیٰ کے لیے ہیں“ ( الفاتحہ-1: 2)۔ اس کائناتی سچائی کو نظر انداز کرتے ہوئے انسان اکثر شیطانی رغبتوں کا اسیر ہوکر اپنی تعریف اور بڑائی میں جینے لگتا ہے، اور وہ بھی ضروری صبر اور انتظار کے بغیر۔ اپنی واہ واہی کے معاملے میں اس کی یہی عجلت پسندی (الانبیاء-21: 37) ایک دن اس کی اچھی اِمج کو بھی خراب کر دیتی ہے۔ اس طرح وہ معاشرے میں حاصل ایک عزت دار شہری کی اپنی حیثیت سے نہ صرف محروم ہو جاتا ہے، بلکہ ماضی میں اس کے ذریعے کئے گئے بہت سارے اچھے کاموں کو بھی کوئی یاد نہیں کرتا۔

اپنی جھوٹی واہ واہی اور اس میں بھی عجلت پسندی کا ایک سچا واقعہ عبرت اور نصیحت کی غرض سے یہاں بیان کرنا موزوں رہے گا۔ الہ آباد بینک کے غیر ملکی زر مبادلہ (foreign exchange) کے شعبہ میں انتخاب اور مختلف قسم کی ٹریننگ کے بعد ہماری جماعت (batch) کے سبھی افسروں کو ملک بھر کی الگ الگ شاخوں میں پوسٹ کردیا گیا۔ میرے ایک ساتھی کی تقرری (پوسٹنگ) ریاست اترپردیش کے بھدوہی شہر کی ایکسپورٹ برانچ میں ہوئی۔ نئی دہلی انٹرنیشنل برانچ میں پوسٹنگ کے دوران، میری کام کے سلسلے میں بھدوہی والے ساتھی سے بات ہوتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ ان سے سوئفٹ (SWIFT) کے متعلق بات ہونے لگی۔ سوئفٹ کا مطلب ہوتا ہے :
Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunications (SWIFT) System.
اس سسٹم کے ذریعے دنیا بھر کے بینکوں کے درمیان راز دارانہ طریقہ سے مختلف قسم کے پیغامات کا تبادلہ(exchange) کیا جاتا ہے۔
سوئفٹ کے متعلق میں نے جو بات بھی ان سے معلوم کی، انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ انہیں معلوم ہے اور وہ خود اپنی برانچ میں کرتے بھی ہیں۔ ان کی باتیں سن کر میں بہت متاثر ہوا اور ایک ماہر (expert) شخص کے طور پر ان کی عزت کرنے لگا۔ مگر الله تعالیٰ کو جو منظور، کچھ عرصہ بعد ان کا ٹرانسفر میری برانچ کے ہی ایک دوسرے ڈپارٹمنٹ میں ہوگیا۔ میرے ڈپارٹمنٹ کا حصہ ہونے کی وجہ سے، میں سوئفٹ سسٹم کی جملہ نزاکتوں سے واقف تھا۔ ایک دن مجھے کہیں جانا تھا تو میں نے مذکورہ افسر کو بلا کر اپنے اسسٹنٹ سے متعارف کروایا کہ یہ سوئفٹ سسٹم کے ایکسپرٹ ہیں، اس لیے یہ سہی سے کام پورا کروا دیں گے۔ مگر یہ کیا؟ مسٹر ایکسپرٹ نے ہتھیار ڈال دئے اور اعتراف کیا کہ ان کو سوئفٹ سسٹم کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے، اور ان کی برانچ میں کوئی دوسرا افسر یہ کام کیا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ بینک کے بہت سے دوسرے معاملات میں بھی ان کی حیثیت ایک نیم حکیم سے زیادہ نہیں ہے۔ کیا ان کی اِمج ابھی بھی وہی رہے گی جو کبھی پہلے تھی؟

جہاں تک موجودہ دور کے مسلمانوں کی بری اِمج (bad reputation) کا تعلق ہے تو وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں (attitudes) میں آئی گراوٹ کی وجہ سے بنی ہے، ورنہ کبھی مسلمانوں کا نام ہی ان کی پاکیزگی کی علامت ہوا کرتا تھا۔ بہت عرصہ نہیں گزرا جب مغرب کے وقت مسجد کے باہر غیر مسلم عورتیں نمازیوں سے اپنے بچوں پر پھونک ڈلوانے کے لیے لائن لگایا کرتی تھیں۔ غیر مسلم حضرات مسلمانوں کو میاں جی کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں، سماج میں داڑھی والے مسلمانوں کو بہت زیادہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یقیناً، غور طلب امر ہے کہ یہ سب کس طرح کل کی بات ہو کر رہ گئ؟

عروج کا ہزار سالہ عرصہ زوال کا شکار کیا ہوا، مسلمان گویا اپنی سدھ بدھ (presence of mind) ہی کھو بیٹھے۔ مسلمان تو اس کہاوت سے بھی کمزور ثابت ہوئے کہ ”ہاتھی مردہ بھی سوا لاکھ کا“.
کیا مسلمان دنیاوی اقتدار کو ہمیشہ کے لیے اپنا حق سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ قوموں کا عروج و زوال دنیا میں الله تعالیٰ کی امتحانی اسکیم کا حصہ ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو زوال یافتہ ہو جانے کے بعد بھی الله تعالیٰ کا بلند پایہ شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ اس نے دنیا میں مسلمانوں کو بہت زیادہ عزت اور طویل اقتدار عنایت کیا۔ شکر گزاری تو دور کی بات، مسلمان مختلف قسم کی بہکی بہکی باتوں میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ مسلمانوں کے نوجوان افراد اپنی تنزلی (decline) کو دوبارہ بلندیوں کی طرف گامزن کرتے، ان کو بتا دیا گیا کہ دنیا میں الله تعالیٰ کی حکومت قائم کرنا مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے۔ 20 ویں صدی عیسوی اسی انتشار میں گزر گئی، جب کہ بعد کے علماء نے اپنی قرآنی تحقیقات سے واضح کر دیا کہ دنیا میں الله تعالیٰ کی حکومت یا دوسرے الفاظ میں دنیا میں مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے جیسے نظریات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کائنات میں الله تعالیٰ کی حکومت تو اول دن سے نافذ ہے۔ امتحانی مصلحت کی غرض سے رونما ہونے والے سارے واقعات اسی کی مرضی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ چوں کہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں، بلکہ امتحان کے اصول پر بنائی گئی ہے، اس لیے، الله تعالیٰ کی حکومت یعنی مکمل انصاف پر مبنی حکومت دنیا کا نہیں، بلکہ آخرت کا ہی ظاہرہ ہوسکتا ہے۔

قوم کے بچوں اور نوجوانوں پر شانہ بہ شانہ ایک اور بڑا ظلم مسلط کیا گیا۔ مسلم عوام کو قرآن پاک کی صرف ناظرہ تلاوت کی اجازت دی گئی، یہاں تک کہ سبھی کے لیے ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ گویا ممنوع ہوکر رہ گیا۔ نتیجتاً، الله تعالیٰ کی ہدایات اور قرآنی عجائبات مخمل کے خوب صورت جزدان میں قید ہو کر رہ گئے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کو ابھی بھی یہ احساس نہیں ہے کہ وہ علم و آگہی کے معاملے میں صدیوں پیچھے ہوگئے ہیں۔ کسی کو رہنمائی فراہم کرنا تو دور کی بات، مسلمانوں کے لیے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے، اور نت نئے مسائل گویا ان کا مقدر بنتے جا رہے ہیں۔

قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور الله سے ڈرو بیشک الله بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے“ (الحجرات-49: 12)۔ اسی کے ساتھ مختلف احادیث میں اپنے بھائیوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کو مسلمانوں کا مبارک فعل بتایا گیا ہے۔ یہاں قابل غور امر یہ ہےکہ کیا مسلم معاشرہ الله تعالیٰ اور اس کے آخری رسول حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کی مذکورہ ہدایات پر عمل کررہا ہے۔

ہمارے ماحول میں اپنے بھائیوں کے عیبوں کی پردہ پوشی نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ہوا خیزی عام ہوگئی ہے، جو قوم کی بدنامی کی بنیادی وجہ ہے۔ لیڈر قسم کے حضرات مختلف گروہوں اور جماعتوں میں منقسم ہوگئے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں قومی اتحاد کی بہترین صورت صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت میں، مگر اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے اور ان کے اندر بری عادتوں کی نشونما سے ان کی حفاظت کرے۔ اس سلسلے کو دوام ملنے کی صورت میں یہ نظارہ آنکھوں کے لیے نہایت ہی فرحت بخش ہوگا کہ الگ الگ پس منظر اور گھروں سے نکل کر تربیت اور تعلیم یافتہ مسلم نوجوان جب عیدگاہ کے وسیع میدان میں اپنی قوم کی متحدہ نمائندگی کریں گے۔

بلا شکوک و شبہات یہ ایک حقیقت ہے کہ جس قوم یا افراد کی پہچان یا امج (reputation) داغ دار ہوجاتی ہے، ان کی ترقی بھی رک جاتی ہے، کیوں کہ دوسرے افراد یا قوموں کی نظر میں ان کی اعتباریت یا امانت داری(trustworthiness) ختم ہوجاتی ہے، جب کہ یقین یا اعتبار (trust) پیار یا محبت (love) سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اور مختلف لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کے لیے ضروری چِپک (adhesive) بھی۔ اپنی نیک نامی پر معمولی (ordinary) سا داغ بھی ہم سب کے لیے ایک غیر معمولی (extraordinary) حادثہ ہونا چاہیے، اور بلا تاخیر اس کی صفائی اور اصلاح کی کوشش میں پوری سنجیدگی کے ساتھ لگ جانا چاہیے۔ تب ساتھ ہی ساتھ بدنامی کا ازالہ ممکن ہوسکتا ہے۔

الله تعالیٰ اپنے گنہگار بندوں کو توبہ اور رجوع کے بعد نہ صرف معاف کر دیتا ہے بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازتا ہے۔ الله رب العزت کے رحم و کرم کے اسی پہلو کو نظر میں رکھتے ہوئے، امید کی جانی چاہیے کہ بدنامی کی آلودگی سے بھی نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ صرف نیک نیتی سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
اصلاحی کوششوں میں ’ردعمل‘ (reaction) کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے، بلکہ جو چیزیں شامل ہونی چاہئیں وہ ہیں: پیدا شدہ صورت حال کی قبولیت، اپنی غلطیوں کا اعتراف، خاموش تدابیر، اصلاح کے لیے ضروری مواد اور اول تا آخر مثبت حکمت عملی۔

اگر کسی شخص کا سابقہ ٹرین کے ایک ایسے بِلا ٹکٹ مسافر (ticketless traveller) سے پڑا ہے جو سفر کے دوران پکڑا گیا تھا، تو وہ ضرور جانتا ہوگا کہ ٹکٹ کے پورے پیسے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ، جرمانہ (penalty) الگ سے دیا جاتا ہے۔ کچھ یہی طریقہ داغ دار امج کو صاف کرنے میں بھی درکار ہے۔ اُن ساری کوتاہیوں اور لغزشوں کو، جو بدنامی کا سبب بنی ہیں، بغیر کسی رعایت کے ہمیشہ کے لیے ترک کردیا جانا چاہیے۔ ہر قسم کے بحث و مباحث اور دلائل پیش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مذکورہ معاملہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال کر فوکس کسی دوسرے نیک کام پر کرنا چاہیے۔ اس دوسرے نیک کام میں کسی بھی قسم کے نام و نمود کی امید کے بغیر، پورے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ منہمک ہوجانا چاہیے۔ باہر کی دنیا سے روشناس کرانے کے لیے فطری طاقتوں (natural forces) کو اپنا کام کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ فطرت کو اپنا کام کرنے کا موقعہ فراہم کیا جانا گویا الله تعالیٰ کی رحمتوں کا انتظار کرنا ہے۔

فی الحال، قوم کے بچوں اور نوجوانوں کے سامنے بڑے پیمانے پر صرف اور صرف علم ( اور لیاقت) کا حصول ہی کوئی بڑا اور نیک کام ہوسکتا ہے۔ بجا فرمایا گیا ہے:
” ہو علم تو پھر کیا نہیں امکاں میں تمہارے،
تم چاہو تو جنگل کو بھی گلزار بنا دو“۔ (سیماب اکبرآبادی)

الله تعالیٰ کی رحمتوں کا انتظار کرنے والے کبھی مایوسی کی کیفیت سے دوچار نہیں ہوتے۔ ان کی مدد ایسی جگہ سے کی جاتی ہے جو ان کے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتی۔ میری بیٹی نشاط رحمٰن نے فائن آرٹ (Fine Art) میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ پینٹنگ (Painting) کی مصروفیات کے ساتھ ہی اس نے اپنی ذاتی اسکوٹی پر ملک بھر کی لینڈ مارک (Landmark) عمارتوں کو رنگ بہ رنگ پینٹنگ کے ذریعے ایک شاہکار تخلیق کردیا۔ مذکورہ آرٹ پیس (Art piece) کو جب نئی دہلی کی ایک نمائش (Art Exhibition) میں رکھا گیا تب اس سے لطف اندوز ہونے والوں کا ہجوم ٹوٹ پڑا۔ پریس بھی اس کا نوٹس لئے بغیر نہ رہ سکی۔ ہندوستان ٹائمز اور دینک بھاسکر جیسے ملک کے کئی اخبار و رسائل نے نشاط رحمٰن اور اس کی اسکوٹی پر اسٹوری (feature) شائع کیں۔ اس کے انٹرویو لئے گئے، گویا کہ پلک جھپکتے ہی، نشاط رحمٰن ایک سیلیبریٹی (celebrity) بن گئی، الحمدللہ!

خاموشی، خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے والوں کے لیے مذکورہ بالا سچی کہانی میں بیش بہا رہنمائی موجود ہے۔ یہ رہنمائی ان کے لیے ہے جو کسی بھی علمی میدان میں اپنی حیثیت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں، اور ان کے لیے بھی جنہوں نے کسی بھی معاملہ میں اپنی کوتاہیوں کے سبب اپنی اِمج خراب کرلی ہے۔ اپنی خراب امج سے قطع نظر، جب کوئی شخص خاموشی کے ساتھ کسی نئی اور جامع چیز پر فوکس کرتے ہوئے عظمت کے منازل طے کرتا ہے اور معاشرہ اس سے محظوظ ہونے لگتا ہے تب اس کی کھوئی ہوئی نیک نامی اس کو واپس مل جاتی ہے، اور ماضی میں لگے بدنامی کے داغ وقت کی دھول بن کر اڑ جاتے ہیں۔

اب آخر میں، اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں مزید کسی مباحثہ کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک و معاشرے میں مسلمانوں کی وقتاً فوقتاً الگ الگ زاویہ سے خراب ہوتی امج کے پس منظر میں صرف اور صرف علمی پسماندگی کار فرما ہے۔ چوں کہ علمی پسماندگی ہی کسی فرد یا قوم کے جملہ مسائل و مصائب کا سبب ہوتی ہے؛ اس لیے، صدیوں کی تباہی کے بعد علم کے معیارات (standards) کے متعلق اب کوئی سمجھوتا (compromise) گوارا نہیں کیا جا سکتا، ورنہ مشہور شاعر مرحوم عاشق حسین صدیقی عرف سیماب اکبرآبادی اپنی بات پورے وثوق کے ساتھ مدتوں پہلے پیش کر چکے ہیں۔ ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ، قوم کی خدمت میں ان کا ایک معروف شعر عرض ہے:
” بے علم کا جینا بھی ہے اک قسم کا مرنا،
جیسے تنِ بے روح جلادو کہ دبا دو“.