ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کی تاریخی جامع مسجد کو شیو مندر بتا کر گیان واپی مسجد کی طرز پر اس کا سروے کرانے کا مطالبہ شروع کیا گیا ہے، قبل ازیں ہندو تنظیموں کی جانب سے اجین شپرا ندی کنارے پر واقع بنا نیو کی مسجد کو شیومندر ہونے کا دعوی کرکے اس کا سروے کرانے کا مطالبہ شروع کیا گیا۔
مدھیہ پردیش میں ہندو تنظیموں کی جانب سے کئی مساجد میں سروے کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ہندو تنظیموں کی جانب سے پہلے اجین شپرا ندی کنارے پر واقع بنا نیو کی مسجد کو شیومندر ہونے کا دعوی کرکے اس کا سروے کرانے کا مطالبہ شروع کیا گیا تو اب دارالحکومت بھوپال کی تاریخی جامع مسجد کو شیو مندر بتا کر اس کا سروے کرانے کا مطالبہ شروع کیا گیا ہے۔
سنسکرتی بچاؤ منچ کی جانب سے اس معاملے میں نہ صرف عدالت سے رجوع کیا گیا ہے، بلکہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ ڈاکٹر نروتم مشرا کو بھی میمورنڈم پیش کرکے تاریخی جامع مسجد کا سروے کرانے اور مسجد کو شیو مندر بتا کر اسے ہندو سماج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بھوپال کی جامع مسجد شاہی اوقاف کی زیر نگرانی ہے۔ شاہی اوقاف کی ٹرسٹی نواب پٹودی کی بڑی صاحبزادی صبا سلطان ہیں جو ممبئی میں رہتی ہیں اور ان کے سکریٹری اعظم ترمذی ہے جو شاہی اوقاف کا کام دیکھتے ہیں، ان دنوں عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ گئے ہوئے ہیں۔ اعظم ترمذی کے آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ شاہی اوقاف کا اس معاملے میں کیا اقدام ہوگا۔
ممتاز مورخ رضوان انصاری کے مطابق بھوپال جھرنیا میں جو جین مندر قائم ہے وہ اس مسجد کی زمین کے بدلے میں دی گئی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہاں پر تیرہویں صدی میں ایک سبھا منڈل تعمیر کیا گیا تھا جس میں درس و تدریس کا کام کیا جاتا تھا، لیکن تیرہویں صدی کی بہت سی جنگوں میں یہ جگہ تباہ ہوئی اور اٹھارہویں صدی کی ابتداء تک یہاں پر سوائے کھنڈر کے کچھ نہیں تھا۔ جب نواب قدسیہ بیگم نے مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے زمین کے تعلق سے معلوم کروایا۔ جین سماج کے لوگوں نے اس پر اپنا دعوی کیا اور ان کے مطالبہ پر انہیں زمین کے ساتھ رقم بھی دی گئی۔ سبھی دستاویز موجود ہیں۔