سپریم کورٹ (عدالت عظمیٰ) نے ایک اہم فیصلہ میں قانون بغاوت ہند کے استعمال پر روک لگادی ہے، چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کولی کی سہ نفری کمیٹی نے سرکار سے کہا ہے کہ اس قانون کے تحت اب کوئی اف آئی آر درج نہیں ہوگی، اور جو لوگ اس قانون سے ماخوذ ہوئے اور جیلوں میں محبوس ہیں، ان کی ضمانت کی درخواست قابل سماعت ہوگی، اور وہ عدالت میں ضمانت کی عرضی لگا سکتے ہیں، یہ روک اس وقت تک رہے گی جب تک حکومت دفعہ 124 ؍اے اور اس کے متعلقات پر نظر ثانی نہیں کرلیتی، اس طرح کہنا چاہیے کہ یہ عبوری روک ہے، عدالت چاہتی ہے کہ اس متنازع قانون کے ختم کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔
ہندوستانی قانون آئی پی سی کی دفعہ 124؍اے کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی تقریر ، تحریر، اشارے او رمنظر کشی کے ذریعہ قانونی طور پر منتخب حکومت کے خلاف نفرت اور بے اطمینانی کی فضا پیدا کرتا ہے یاا س کی کوشش کرتا ہے تو اسے عمر قید یا تین سال قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے ۔
یہ قانون ہندوستان میں برطانیہ سے بر آمد کیا گیاہے، برطانیہ میں1838ء میں تھامس بیبگٹن میکالے نے یہ قانون ’’ویسٹ منسٹر قانون‘‘ کی زد سے باد شاہ کو بچانے کی غرض سے بنایا تھا، پھر اس قانون پر نظر ثانی کا کام18۶۰ء میں ہوا اور اسے باقی رکھا گیا ۔ 1870ء میں جیمس فِٹوج جیمس اسٹیفن کی تجویز پریہ قانون آئی پی سی میں جوڑا گیا، انگریز حکومت میں چوں کہ فرد کی آزادی کا تصور نہیں تھا، اس لیے دور غلامی میں یہ قانون آزادی کے متوالوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا، 1921ء میں جب انگریزوں کے خلاف ترک موالات کا فیصلہ دوبارہ شائع ہوا، جس میں انگریزوں کی جانب سے دیے گیے خطابات، عہدے، کونسل کی ممبری، فوج کی ملازمت ، تجارتی تعلقات، سرکاری تعلیم، حکومتی امداد اور مقدمات کی پیروی کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی تھی، تو انگریز حکومت نے اس قانون کا استعمال کیا۔
چنانچہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجددی سندھی، مولانا نثار احمد کانپوری اور جگت گرو شنکر آچاریہ پر اسی دفعہ کے تحت مقدمہ چلایا گیا جو کراچی مقدمہ کے نام سے مشہور ہے۔اسی قانون کے تحت لوک مانیہ تلک اور مہاتما گاندھی کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ہندوستان کی آزادی کے بعد ۱۹۶۲ء میں سپریم کورٹ نے اس قانون کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا نفاذ صرف اس شکل میں ہوگا جب تشدد کے لیے اُکسانا یا پُرتشدد طریقے سے منتخب سرکار کو اکھاڑ پھینکنا مقصد ہو۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سرکار کی مذمت یا اس کے خلاف پُر امن تحریک چلانا اس قانون کے تحت نہیں آتا، لیکن ہر دور میں حکومتوں نے اس تشریح کی ان دیکھی کی اور مخالفین کو جیلوں میں بند کیا۔ اس سے قبل ۱۸۹۸ئ، ۱۹۳۷ئ، ۱۹۴۸ئ، ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء میں اس قانون میں وقتا فوقتا جزوی تبدیلیاں کی جاتی رہیں، ۱۹۵۸ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ رام نندن بنام ریاست میں اس قانون کو کلیۃً رد کر دیا تھا، اس کے بعد ۱۹۶۲ء میں سپریم کورٹ نے اس قانون کی جو تشریح کی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
۱۹۷۳ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے دور حکومت میں اس قانون کے اطلاق پر غیر ضمانتی وارنٹ جاری کرنے کا اضافہ کیا، اس طرح یہ قانون اور سخت ہو گیا، اور ۱۸۹۸ء میں کی گئی ترمیم کے سارے خد وخال بدل ڈالے گیے۔
اب جب کہ ہر پانچ سال کے بعد انتخاب ہو رہا ہے، او رحکومتیں الٹ پلٹ ہوتی رہتی ہیں، ایسے میں حکومت کے خلاف بولنا ملک سے غداری اور بغاوت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے ، المیہ یہ ہے کہ برطانیہ میں 2009ء میں ہی اسے کالعدم قرار دے دیا گیا ، لیکن ہندوستان میں یہ آج بھی بر قرار ہے اور حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اس کے ذریعہ نہ صرف ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے؛ بلکہ اس کا استعمال کرکے حق کی آواز کو دبانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔
قانون دانوں کا خیال ہے کہ یہ پورے جمہوری نظام کے لیے ایک چیلنج ہے ، اب عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بھی کہا ہے کہ اس قانون کی تشریح کا وقت آگیا ہے، اس قانون پر پہلے بھی اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، گاندھی جی نے کہا تھا کہ اس قسم کے کالے قانون کی طاقت سے سرکار کے تئیں محبت کا ماحول نہیں پیدا کیا جا سکتا، غلام ہندوستان میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی ، رام منوہر لوہیابھی اس قانون کے خلاف تھے، ڈاکٹر راجندر پرشاد کی رائے تھی کہ باہری طور سے پابندیاں لگا کر حب الوطنی پیدا نہیں کی جا سکتی، اس لیے نئے ایوان کی تشکیل کے بعد اس قسم کے قانون کو رد کیا جا نا چاہیے۔
لیکن ہر دور میں حکومت کی یہ خواہش رہی کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو غداریٔ وطن اوربغات کا مترادف قرار دیا جائے، حالاں کہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانا اور ملک سے غداری دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن قانونی کمیٹی (ودھی آیوگ) نے 1971ء میں اپنی تینتالیسویں رپورٹ میں حکومت اور وطن کی غداری کو ایک قرار دے دیا، اس نے اس قانون میں سرکار کے ساتھ، دستور، مقننہ اور عدلیہ کو شامل کرنے کی بے تُکی سفارش کر ڈالی، جس کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ ان امور کی حفاظت کے لیے دستور اور آئی پی سی میں پہلے ہی سے الگ الگ دفعات موجود ہیں۔
ملک کی سالمیت ، تحفظ کے ساتھ کھلواڑ کرنے ملک مخالف اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یو اے پی اے، مکوکا جیسے قانون پہلے ہی سے موجود ہیں، ایسے میں حکومت اور ملک سے غداری اور بغاوت کے فرق کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں کو ایک ماننے کی حماقت دستور اور ملک دونوں کے ساتھ دھوکہ ہی کہا جائے گا، سرکار کے خلاف اور غداری وطن کے اس قانون کو ۱۹۵۱ء میں پہلی دستوری ترمیم کے موقع سے دفعہ (۲) ۱۹؍ کے ذریعہ مضبوط کیا گیا، حزب مخالف نے سرکار مخالف تحریک کو غداری اور بغاوت ملک ووطن سے جوڑ کر دیکھنے کی ہر دور میں مخالفت کی۔
چنانچہ ۲۰۱۱ء میں کمیونسٹ رکن پارلیان ڈی راجہ نے ایک نجی بل پارلیامنٹ میںاس کے خلاف پیش کیا؛ لیکن حکومت نے اس پرکوئی توجہ نہیں دی، بھاجپا سرکار آنے کے بعد خود کانگریس کا رخ بدلا ، چنانچہ کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے ایک دوسرا بل پیش کیا، لیکن اس کا حشر وہی ہوا جو کانگریسی دور حکومت میں ڈی راجہ کے ذیعہ پیش کردہ بل کا ہوا تھا، بعد میںکانگریس نے اسے اپنا انتخای مُدّا بنایا اور وعدہ کیا کہ ہماری حکومت آئے گی تو ہم اس قانون کو ختم کر دیں گے، حکومت بھاجپا کی آگئی اور بھاجپا والے جنہوں نے اس قانون کے تحت اذیتیں جھیلی تھیں اپنا کرب بھول کر ملکی مفاد کے عنوان سے اسے باقی رکھنے کے اپنے ارادے کا اعلان کردیا،واقعہ یہ ہے کہ ہر دور میں حکومتوں نے اپنے تحفظ کے لیے اس قانون کی عصمت کو تار تار کیا ہے۔
مشہور وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ کو موجودہ صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں آٹھ سو سے زیادہ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور تیرہ ہزار لوگ آئی پی سی دفعہ ۱۲۴؍اے کے تحت جیلوں میں بند ہیں، اس قانون کے غلط استعمال کے واقعات اس قدر زائد ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے، اس قانون کا استعمال ڈرامہ میں شامل چھوٹے نا بالغ بچوں ، فیس بُک پوسٹ کو پسند کرنے، سنیما گھروں میں قومی ترانہ بجائے جانے کے وقت کھڑے نہ ہونے پر بھی کیا گیا ہے۔
۲۰۱۲ء میں کوڈن کولم میں ایٹمی تنصیبات کی مخالفت کرنے والوں پر اجتماعی طور پر اس قانون کے سہارے ایف آئی آر درج کیا گیا، نوسو لوگ اس کی زد میں آئے، ۲۰۱۷ء میں پتھل گڑی تحریک جھارکھنڈسے جڑے دس ہزار لوگوں کو اس قانون کے سہارے مقدمہ سے گذرنا پڑا، تحریک کاروں میں ارون دھتی رائے، وینایک سین، ہاردک پٹیل، دشاروی، سدھا بھاردواج،کنہیا کمار، عمر خالد، عائشہ سلطانہ کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے کئی لوگ اس قانون کی گرفت میں آئے جن میں اسیم ترویدی منال پانڈے، راجدیپ سرڈیسائی ، ونود دا کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
صرف ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان چھ سال میں بغاوت اور غداری کے اس قانون کے تحت پانچ سو اڑتالیس(۵۴۸) افراد پر مقدمات کیے گیے اور تین سو چھپن (۳۵۶)افراد کو گرفتار کیا گیا، لطیفہ یہ ہے کہ ان میں سے سات(۷) مقدمات میں صرف بارہ(۱۲) آدمی پر ہی جرم ثابت ہو سکااور وہ سزا یاب ہوئے، اعداد وشمار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۱۵ء میں تیس(۳۰) ۲۰۱۶ء میں پینتیس(۳۵) ۲۰۱۷ء میں اکاون (۵۱) ۲۰۱۸ء میں ستر (۷۰) ۲۰۱۹ء میں ننانوے(۹۹) اور ۲۰۲۰ء میں چوالیس(۴۴) افراد گرفتار ہوئے، 2014ء کے بعد سے اس کا استعمال عام طور سے اٹھارہ (۱۸) سے تیس (۳۰) سال کے مسلم نو جوانوں پر کثرت سے کیا گیا۔
اس کے علاوہ مودی حکومت نے اس قانون کا استعمال اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے، بی جے پی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے اور آر ایس ایس کی غیر قانونی سر گرمیوں کے خلاف جو لوگ تھے ان کو کچلنے کے لیے کیا اور اس کی زد میں طالب علم، رضا کار تنظیموں کے افراد ، سیاسی مخالفین، صحافی وغیرہ سب آئے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ان لوگوں کو اب راحت ملنے کی امید ہے۔
یہ صورت حال اس وقت ہے، جب ۱۹۶۲ء میں ہی سپریم کورٹ نے اس قانون کے غلط استعمال پر روک لگانے کے لیے کئی ہدایات دی تھیں، ضرورت ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے مختلف مقدمات میں جو تبصرے کیے ہیں اور ہدایات دی ہیں، اس کی روشنی میں اس قانون کو رد کر دیا جائے؛ تاکہ ملک میں جمہوریت باقی رہ سکے۔