مصنف، شاعر، صحافی، اسلامک اسکالر، سماجی خدمت گزار، اور ۱۹۲۱ میں آزادئ کامل (پرن سوراج) کی مانگ کرنے والے اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ دینے والے آزادی کے سپاہی حسرت موہانی صاحب کی يوم وفات پر خراج عقیدت،
آپ کا پورا نام سید فضل الحسن حسرت موہانی مسعودی تھا،
آپ کی پیدائش 1 جنوری 1875 کو برطانیہ کے زیر اقتدار ہندوستان کے اناؤ ضلع کے موہان گاؤں میں ہوئی تھی،
آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ ۱۹۰۳ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتحپوری سے اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی ۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ ۱۹۰۳ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ ”اردوئے معلی“ جاری کیا۔ اسی دوران شعرائے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا۔”تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست دان بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو۔“ حسرت پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چنانچہ ۱۹۰۷میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد ۱۹۴۷ ءتک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مگران تمام مصائب کو انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔ آپ کو ‘رئیس المتغزلین‘بھی کہا جاتا ہے- مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ حسرت موہانی نے ۱۳حج کیے ۔ پہلا حج ۱۹۳۳میں کیا اور آخری حج ۱۹۵۰میں ادا کیا ۔ ۱۹۳۸میں حج کے بعد ایران، عراق اور مصر بھی گئے، کہتے تھے ۔۔۔
(وکی پیڈیا سے ماخوذ)
جب ہمارے ملک ہندوستان پر انگریز سامراج کا تسلط تھا تو اس وقت ملک کی آزادی کی خاطر کئی الگ الگ نعروں کا ظہور ہو رہا تھا، اُسی کڑی میں ایک نعرہ جس نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا، وہ "انقلاب زنده باد” کا نعرہ بھی آپ نے ہی دیا تھا،
۱۹۲۱ میں احمد آباد کے کانگریس میٹنگ میں عظیم مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل کے ساتھ تھے،
وہ ہندوستانی تاریخ میں پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے انگریزوں سے پوری آزادی (آزادئ کامل) کی مانگ کی تھی،
انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے بعد اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دی اور غزل
(چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے)
جسے غلام علی صاحب نے اپنی آواز دی تھی، آپ نے ہی لکھا ہے،
اگر ان کی شخصیت کی بات کی جائے تو پاکستان کے کراچی میں حسرت موہانی میموریل سوسائٹی، حسرت موہانی میموریل لائبریری، ہال، ٹرسٹ کا قیام اُن کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے،
مولانا کے یوم وفات پر ہر سال یہ ٹرسٹ ان کی یاد میں پروگرام کرتا ہے ہے اسی طرح پاکستان کے کراچی شہر کے اورنگی ٹاؤن میں میں ان کے نام کی ایک کالونی اور روڈ بھی ہے،
اسی طرح بھارت کے شہر کان پور میں مولانا حسرت موہانی ہاسپٹل، مولانا حسرت موہانی روڈ ہے، اسی طرح کانپور میں واقع بتھر میں حسرت موہانی گیلری ہے، کلکتہ کے مٹیابرج میں حسرت موہانی میموریل گرلز ہائر سیکنڈری اسکول ہے،
آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے، اسی لیے آپ کو رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے،
جب ہم آپ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ
آپ اردو غزل گوئی کی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو شاعری کے ارتقاءمیں ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے۔ حسرت موہانی کو قدیم غزل گو اساتذہ سے بڑا ہی ذہنی و جذباتی لگائو تھا۔ اور یہ اسی لگائو کا نتیجہ تھا کہ کلاسیکل شاعروں کا انہوں نے بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ اور اپنی طبیعت کے مطابق ان کے مخصوص رنگوں کی تقلید بھی کی۔ قدیم اساتذہ کے یہ مختلف رنگ حسرت کی شاعری میں منعکس دکھائی دیتے ہیں۔ اور خود حسرت کو اس تتبع کا اعتراف بھی ہے،
آپ نے صرف ایک ہی صنف کی شاعری نہیں کی،
بلکہ آپ نے الگ الگ موضوعات پر لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے، آپ نے عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی شاعری بھی خوب کی، چوں کہ آپ کا سیاست سے گہرا لگاؤ تھا اس لیے آپ نے اس میدان میں بھی اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں، کچھ اشعار سے اسے سمجھا جا سکتا ہے،
کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمتِ انگریز نہ کرتے
آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں ہیں،
آپ کی تحریر کردہ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں،
۱ کلیات حسرت موہانی
۲ شہر کلام غالب
۳ نکاتِ سخن
۴ مشاہدات زندہ
انہوں نے اپنے کلام میں حب الوطنی اصلاح معاشرہ قومی ایکتا مذہبی اور سیاسی نظریات پر روشنی ڈالی ہے،
۲۰۱۴ میں ہندوستانی حکومت نے ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا،
حسرت موہانی نے ۷۲ سال کی عمر میں ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء کو لکھنؤ میں وفات پائی،
آج مولانا حسرت موہانی کو گزرے ہوئے۷۲ سال ہو گئے، ان گزرے سالوں میں آپ کو جو عزت اور احترام ملنا چاہیے تھا شاید نہیں ملا، آپ دل سے کانگریسی تھے، لیکِن۸۲ سال تک کانگریس نے اقتدار میں ہوتے ہوئے آپ کو کبھی وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے،اگر اس تحریر کے بعد آپ کو وہ عزت اور احترام ملتا ہے تو اس تحریر کا حق ادا ہو جائے گا،
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت میں.
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی.