حالات حاضرہ

موجودہ صورتحال پر مسلم قائدین کا اہم اعلامیہ جاری

ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں ملک بھر سے چوٹی کے مسلم قائدین جمع ہوئے جہاں قتل عام کے ماحول و مکمّل صورت حال پر گفتگو و منصوبہ بندی کے ساتھ اہم اعلامیہ کیا جاری یا گیا ہے۔

دس مئی کو ممبئی میں ملک بھر سے جمع ہوئے اعلیٰ مسلم رہنماؤں کی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں مسلم رہنماؤں نے ملک کی موجودہ صورت حال و مسلمانوں کے قتل عام کے بنتے ماحول پر طویل گفتگو کی اور عوام کو ساتھ لیکر زمینی سنگھرش کیلئے منصوبہ بندی کیساتھ ہی میٹنگ میں موجود قائدین نے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جو مندرجہ ذیل ہیں

1۔ مسلم قوم کے خلاف ہونے والے ٹارگیٹ تشدد کے حالیہ واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ اس طرح کے واقعات سنگھ پریوار کی مسلمانوں کی نسل کشی کے منظم منصوبہ کا حصہ ہیں ، جس طرح ماضی میں دنیا میں مختلف جگہوں پر نسل کشی کے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں ویسے ہی آثار ہندوستان میں بھی نظر آرہے ہیں۔

2۔ پچھلے کچھ مہینوں میں فسطائی طاقتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں نے مسلمانوں کی جان ، مال اور عورتوں کو نشانہ بنانے اور مختلف ریاستوں میں دنگے فساد بھڑکانے کے لئےجو طریقۂ کار (رام نومی کی شوبھا یاترا)اپنایا ہے اس سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور ان کے اندر خوف پیدا کرنا ہے، ریاستی سرکاریں سنگھ پریوار کے سامنے یاتو گھٹنے ٹیک رہی ہیں یا ان کا ساتھ دیتی نظر آرہی ہیں۔

3۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اب ایک نیا تجربہ کیا جارہا ہے، جسمیں ایک طرفBuldozer کا استعمال منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کیا جارہا ہے،تو وہیں دوسری طرف مسلمانوں نے بھی اپنی جان اور مال کی حفاظت کے بنیادی حقوق کے لئے سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ کیا ہے جو اصل میں سنگھ پریوار کے لئے ایک آگاہی تھی، مسلمانوں کے اسی حوصلے کو توڑنے کے لئے سنگھیوں کی منصوبہ بندی کے تحت گودی میڈیا کے ذریعہ سے مسلمانوں کو دنگائی بتا کر ان پر کالے قانون تھوپے گئے ۔ ان سب کا مقصد مسلمانوں کو اور ان کی قوم کے لیڈروں کو صاف صاف میسج دینا تھاکہ تم اپنے دفاع کے بارے میں سوچنا بھی نہیں، اور نہ سنگھی طاقتوں کے نسل کشی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرنا۔

4۔ میٹنگ میں موجود مسلم رہنماؤں نے اپنی قوم کے مقامی لیڈروں کی حوصلہ افزائی کی، جو کسی بھی شکل میں سنگھ پریوار کی پلاننگ کے خلاف جدوجہد کر کے ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اکثر مقامات پر مسلمانوں نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے منظم انداز میں کوششیں کیں، یہ بہت ہی مثبت پہلو ہے۔

اس میٹنگ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مقامی لیڈروں کو مسلسل اپنے اپنے علاقوں میں حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، مسلمانوں کے خلاف سنگھ پریوار کے ہونے والے حملوں کو منظم انداز میں منصوبہ بندی کے ذریعہ سے ممکن حد تک روکا جاسکتا ہے، جبکہ یہ کام ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کی حفاظت کرے۔

5۔ جو دوسرا بدلاؤ بی جے پی حکومت کے تحت مختلف ریاستوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے مسلمان جو کہ اصل میں مظلوم ہیں، ان کو نشانہ بنارہی ہے اور جو سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے مجرم ہیں وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔

اس میٹنگ میں موجود لوگوں کا ماننا ہے کہ علاقائی سطح پر جلد از جلد ایک مضبوط قانونی سسٹم کو کھڑا کیا جائے، جو مظلوموں کی مدد کرسکے، قوم کے نوجوانوں میں قومی لیڈروں کے تعلق سے یہ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر نوجوانوں کو جھوٹے کیسوں میں پھنسایا گیا تو ہماری قوم کے لیڈرس ہمارے لئے قانونی جدوجہد کریں گے، ایسا قانونی سسٹم بالآخر قوم کے اندر اعتماد پیدا کرے گا۔

6۔ اس میٹنگ میں موجود قائدین اور کارکنوں کا مسلم قوم سے کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر کھڑے ہوجائیں اگر سنگھ پریوار مسلمانوں کو نشانہ بنا کر Buldozer حکمت عملی کا استعمال کرے ۔ ہم کو اچھی طرح یہ سمجھنا ہوگا کہ Buldozer کی سیاست کسی خاص علاقے ، شہر اور محلے کی حد تک نہیں رکے گی، بلکہ ہر اس مسلم کے گھر تک پہنچے گی جس نے سنگھ پریوار کے منصوبہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ۔Buldozer کی سیاست کو ہرانے کے لئےصرف زبانی سپورٹ ہی کافی نہیں ، بلکہ جمہوری طریقے سے لڑائی لڑنے کے لئے ذاتی موجودگی بھی ضروری ہے ۔

شاہین باغ کے لوگوں نے ایک بار پھر سے ملک کے لوگوں کے سامنے جمہوری طریقہ کار سے عوامی دفاع کی اہمیت اور اس کابنتیجہ پیش کیا ہے۔ اب یہ حقیقت سامنے ابھر کر آئی ہے کہ لوگوں کا پرعزم انداز میں سڑکوں پر اتر کر Buldozer پالیسی کے خلاف جدوجہد کرنا ہی سرکار کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتا ہے۔

7۔ اس میٹنگ میں موجود خواتین و حضرات نے علاقائی مسلم لیڈرس کو شاہین باغ کے لوگوں کی طرف سے جمہوری دفاع کے طریقے سے سبق لے کر اپنے آپ کو اپنے علاقے میں قوم کی حفاظت کے لئے منظم انداز میں جدوجہد کے لئے کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔

8۔ اس میٹنگ میں موجود لوگوں کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں قوم کو موجودہ حالات سے واقف کراکر ان کی مناسب رہنمائی کرنے والی پورے ملک میں کوئی تحریک نہیں ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پورے ملک میں علاقائی سطح پر کچھ پہل ہورہی ہے مگر آپس میں تال میل، مسلسل جدوجہد اور نظریہ کی کمی ہے۔

حالات تقاضہ کررہے ہیں کہ مسلم لیڈرس اب متحد ہوکر امن اور شانتی قائم کرنے کے لئے ایک ملک گیر سطح کی تحریک بنا ڈالیں، قوم اپنے لیڈروں سے ان حالات میں رہنمائی کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ اسی لیے اس مشاورتی اجلاس میں موجود قومی لیڈروں نے بالاتفاق ایک نئے پلیٹ فارم کی تشکیل اور بامقصد پر امن تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ، جس میں ملت کے تمام طبقات کی حصہ داری ہو، اور دستور وقانون کی پابندی کرتے ہوئے آئینی حقوق اور جان ، مال ، عزت وآبرو اور مقدس مقامات کے تحفظ کی ہرممکن کوشش کی جائے اور ملت کو ایک ایسے منظم گروہ میں تبدیل کرنے کی سعی پیہم کی جائے جس سے ملک اور اس کے تمام باشندوں کو امن و انصاف کا ماحول فراہم ہوسکے۔

امید ہے کہ جلد ہی اس تحریک کے بارے میں تفصیلی اطلاع ملک و ملت میں عام کردی جائے گی۔اس میٹنگ میں ملک کے تمام ریاستوں سے صوبائی سطح پر با اثر مانے جانے والے مسلم مذہبی، سماجی اور سیاسی لیڈران شامل ہوئے تو وہیں قومی سطح کے اہم مسلم قائدین نے بھی شرکت کی تھی جس میں نام ور عالم دین مولانا سجاد نعمانی، سابق ممبر پارلیمنٹ مولانا عبید اللہ خان اعظمی، احمد ولی فیصل رحمانی امیر شریعت بہار اڑیسہ جھارکھنڈ، سید سرور چشتی سجّادہ نشیں درگاہ اجمیر شریف، محمد ادیب سابق ممبر پارلیمنٹ، ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قومی جینرل سیکریٹری انیس احمد، جماعت اسلامی ہند کے مجتبٰی فاروق، سماجوادی پارٹی کے مہاراشٹرا کے ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی، شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے ظہیر عبّاس رضوی، نا خدا مسجد کولکتہ کے امام محمد شفیق قاسمی، نام ور عالم محمود خان دریا آبادی، رحمانی 30 کے فہد رحمانی ، نوجوان متحرک عالم دین مولانا مہدی حسنی عینی، معروف ویمنس ایکٹوسٹ سمیہ نعمانی، ایم کے فیضی قومی صدر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا، ڈاکٹر اسماء زہراء آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت دیگر چوٹی کے مسلم لیڈران جمع ہوئے تھے۔۔