عید کے ساتھ ہی شادیوں کا سیزن شروع ہوجائیگا۔ کل تک جو لوگ نیکیاں لوٹنے میں مصروف تھے، کوئی تین تراویح میں قرآن ختم کررہا تھا تو کوئی پانچ میں، کسی نے اعتکاف بیٹھا تو کسی نے خوب خیرات وافطاری بانٹی۔حالانکہ یہ چیزیں فرض بھی نہیں ہیں، لیکن اس ماہ جوشِ عبادت پورے عروج پر ہوتا ہے، نیکیوں کا یہ طوفان عید کے ساتھ ہی جب تھمتا ہے تو عید کا سیزن شروع ہوجاتا ہے، اور جتنی نیکیاں رمضان میں کمائی تھیں، وہ ساری منکرات اور خرافات میں غرق ہوجاتی ہیں۔
اب دیکھتے دیکھتے عید کے ساتھ ہی پھر وہی شادیاں، باراتیں، باراتوں کے کھانے، جہیز اور بیوٹی پارلر سب کچھ عروج پر ہوں گے، ایسا لگے گا ہی نہیں کہ عید سے پہلے تک یہی دیندار نما لوگ جو گِڑگِڑا، گِڑگِڑا کر پچھلے گناہوں کی معافی اور اگلے گناہوں سے حفاظت کی اللہ سے دعائیں مانگ رہے تھے۔ اب بصد شوق گناہوں کے گندے نالوں میں ڈُبکیاں لگانے بے چین ہیں۔پھر وہی ڈرامے بازیاں ہوں گی، لڑکے والے کہیں گے کہ ہم نے کچھ نہیں مانگا لڑکی والوں نے زبردستی کی۔ لڑکی والے بھی اپنے اپنے حیلے پیش کریں گے۔ ہمیں لڑکے والوں کے جھوٹ پر افسوس ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی سنّت کے مطابق شادی کرنے کی خواہش رکھتے تھے تو شادی کی بات چیت میں پہلی شرط یہی کیوں نہیں رکھتے کہ اگر جہیز اور کھانا ہوگا تو ہم شادی نہیں کریں گے؟ کیا وہ دنیا کی آخری لڑکی ہے جو نہ ملے تو شادی ہی نہیں ہوسکتی؟ ان کی ایکٹنگ کی یہ انتہا ہوتی ہے کہ کہتے ہیں کوئی جہیز مت دیجئے، صرف شادی معیاری کیجئے۔ یہ لوگ کھل کر یہ نہیں بتاتے کہ کس کا معیار؟ نبی ﷺ کا یا کسی اور کا؟
اس پورے کاروبار میں ہماری مذہبی قیادت کا رول بہت اہم ہے۔ چاہے جس مسلک کے ہوں، جب تک یہ لوگ یہ کہتے رہیں گے کہ ”مانگنا غلط ہے، ہاں خوشی سے دینا یا لینا جائز ہے“، شادیوں کی منکرات ختم ہونا ممکن نہیں ہے۔ لیکن تمام مسلک اگرچہ کہ عقیدے اور دوسرے کئی مسائل پر ایک دوسرے کی کھلی تکفیر اور تحقیر کرتے ہیں، لیکن ایک نکتہ پر ان کا اتحاد بلکہ اجماع ہے کہ شادی کی سنّت کو قائم ہونے نہیں دیں گے۔
سب سے بڑا ناجائز تو ایسی شادیوں میں شرکت کرنا ہے، لیکن مولوی و مشائخین بضد ہیں کہ جہیز، جوڑا، بارات کا کھانا ناجائز سہی، اس میں شرکت جائز ہے۔ یوں تو اجتہاد کے دروازے سختی سے بند ہیں، لیکن شادیوں کے معاملے میں ہر مسلک کا مولوی اپنا اپنا اجتہاد پیش کررہا ہے، اور اکثریت کو خوش رکھنے کے لئے فتوے دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے اصلاحِ معاشرہ کمیتی کی ایک قراد داد سوشیل میڈیا پر گھوم رہی ہے، یہ اگرچہ کہ ایک سال پرانی مارچ 2021کی ہے، لیکن چونکہ جماعتوں کے پاس کارکنان کو دینے کوئی ہوم ورک نہیں ہے، اس لئے جماعت کو متحرک دِکھانے اور پیروکاروں کو مصروف رکھنے کے لئیجماعت ایک ہی ہوم ورک دوہراتی رہتی ہے۔ یہی فرق ہے ہم میں اور دوسروں میں۔ دوسرے ہر ہفتہ غنڈوں کو ہاتھوں میں لاٹھیاں، تلواریں اور جھنڈے دے کر ہر ہفتہ ایک نیا ہوم ورک دے رہا ہے، اور ہمارے پاس ۔۔۔ آ پ جانتے ہیں ہماری جماعتوں کے پاس دینے کے لئے کیا ہوم ورک ہے۔
اس قرارداد میں کل 23 نکات ہیں۔ تمام کا حاصل یہ ہے کہ جو سسٹم چل رہا ہے، چلنے دیجئے، حرام حلال کی بحث مت کیجئے، بس کوشش کیجئے کہ لوگ سادگی اختیار کریں، اگر نہ مانیں تو ان کی تقریبات میں شرکت کوئی گناہ نہیں ہے، ضرور کیجئے۔
مثال کے طور پر 8 ویں قرارداد یہ ہے کہ ”جہیز کا مطالبہ یا جبری لین دین ہو تو پہلے سمجھایا جائے، ورنہ ناپسندیدگی کا اظہا ر کیا جائے اس لئے کہ منکر پر نکیر ضروری ہے“۔کیا کوئی تسلیم کرے گا کہ اس نے مطالبہ کیا یا جبری طور پر لیا ہے؟ اظہارِ ناپسندیدگی کا اظہار کس طرح ہو؟ کیا ایسی شادی کا دعوت نامہ قبول نہ کرنے سے زیادہ موثر کوئی اور طریقہ ہے؟ نکیر کا طریقہ کیا ہو یہ تو بتایئے۔ نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کی تاریخ میں جب جہیز یا بارات کے کھانے کا وجود ہی نہیں توچاہے وہ خوشی سے دے یا جبری، ہر دو صورتوں میں ناجائز ہے۔ اس کو کسی طرح جائز کرنے کا اجتہاد کس نے کیا؟
قرارداد10میں کہا گیا کہ”غریب بچیوں کے لئے اجتماعی نکاح کا نظام قائم کیا جائے، اور سادگی کا خیال رکھا جائے“۔ دورِ رسالت یا پوری اسلامی تاریخ میں اجتماعی نکاح کا کیا کوئی ایک بھی واقعہ موجود ہے؟
16
وہیں قرار داد میں یہ اقرار نامہ لینے کے لئے کہا گیا کہ لوگ سادگی سے شادی کریں گے۔ لفظ سادگی کی جگہ اگر سنّت کہتے تو اقرار نامہ میں کوئی دم بھی ہوتا۔ لفظ سادگی کے استعمال کرنے کی اجازت در اصل ہر شخص کو اس کی اپنی سادگی اور استطاعت کے مطابق آزادی دے دی جائے تو یہیں سے فتنہ شروع ہوتا ہے۔
17
ویں قرارداد میں کالج اسٹوڈنٹس سے یہ عہد لینے کہا گیا کہ وہ خاندان کے دباو کو قبول کئے بغیر سنت کے مطابق نکاح کو ”ترجیح“ دیں گے۔ ترجیح یعنی Preference۔ یعنی لازمی نہیں بلکہ صرف کوشش کرینگے۔ لیکن اگر ماں باپ یا بزرگ ضد کریں گے تو پھر ہتیار ڈال دیں گے۔
18ویں قرارداد یہ ہے کہ ”مختلف برادریوں سے عہد لیں گے کہ وہ ان رسومات کو ختم کرنے کی ”کوشش“ کرینگے“۔ کوشش تو سبھی کرتے ہیں، لیکن مانتا کون ہے؟ کیا قریشی، میمن، انصار، باغبان وغیرہ جیسی برادریاں جن کی شادیاں ایک کروڑ سے کم کی نہیں ہوتیں،جب تک ایسی شادیوں میں شرکت کا شرعی مقام طئے نہ ہو، کیا یہ لوگ مانیں گے؟
19 ویں قرارداد میں کہا گیا کہ آتش بازی اور Mixed gthering سے بچا جائے۔ لیکن اگر کوئی باز نہیں آتا تو پھر اس کی شادی میں شرکت کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے پہلے یہ بتایئے۔ اگر جائز ہے تو پھر ایسے کروڑوں عہد نامے لیجئے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
23
ویں قرارداد جو سب سے زیادہ واہیات ہے، وہ یہ کہ ”لڑکی والوں سے کھانے کی دعوت پر زور نہ دیا جائے اور ولیمہ کو دولت کی نمائش کا ذریعہ نہ بنایا جائے“۔ زور نہ دیا جائے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ خوشی سے کھلا رہے ہیں تو خوب ڈٹ کر کھایا جائے۔ پہلے یہ طئے ہو کہ سیرت رسولﷺ یا سیرتِ صحابہؓ میں کہیں لڑکی والوں سے کھانا لینے کی کوئی ایک بھی روایت موجود ہے؟
ہمیں ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک شریر گدھے کو اس کے مالک نے رسی سے باندھ دیا۔ شیطان کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے گدھے کی رسی کھول دی۔ گدھا پڑوسی کے کھیت میں جاکر چرنے لگا اور فصل کو خراب کرڈالا۔ کھیت کے مالک غصہ آیا، اُس نے جاکر گدھے کے مالک کو قتل کردیا۔ مقتول کے بیٹے نے غصّے میں جاکر کھیت کے مالک کو قتل کردیا۔ پھر دونوں طرف کے بیٹا بیٹی نے انتقاماً ایک دوسرے کے گھر کو آگ لگادی، آگ پوری بستی میں پھیل گئی اور کئی گھر جل گئے۔ کسی نے شیطان سے کہا، یہ ساری بربادی تیری وجہ سے ہوئی تجھے شرم نہیں آتی؟ شیطان نے کہا میں نے کچھ نہیں کیا، میں نے تو صرف رسّی کھولی تھی۔
”جہیز اور کھانا مانگنا غلط ہے، ہاں کوئی خوشی سے دے تو لینا اور دینا جائز ہے“ یہ فتویٰ دینے والے ہی دراصل وہ لوگ ہیں جو گدھے کو رسی کھول کر دے رہے ہیں۔اسی کی وجہ سے ہر شخص کو آزادی ملتے ہی اپنی اپنی سادگی کے معیار سے وہ پورے معاشرے کو آگ لگا رہا ہے۔ اسی لئے آج گھروں کا بیچنا، سود پر پیسہ لینا یا خیرات اور بھیک مانگنا، چوری جھوٹ یا دھوکے سے کسی بھی طرح کما کر بیٹیوں کی شادیا ں کرنا، ورنہ لڑکیوں کا فحاشی اور ارتداد کی طرف بڑھنا سوسائٹی میں کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے،اس کے ذمہ دار نہ آریس یس ہے نہ بی جے پی، اس کے ذمہ دار دو لوگ ہیں، ایک وہ جو ایسے فتوے دے کر چور دروازے کھول کر دے رہے ہیں۔
دوسرے وہ بے حِس لوگ جو ایسی شادیوں کی تقریبات میں شرکت کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ جواز ہر مسلک کے مولوی پیش کررہے ہیں۔ اگرچہ کہ یسے علمائے حق موجود ہیں جو حرام کو حرام کہتے ہیں، لیکن وہ، اکثریت کی مروّت میں زیادہ زور سے نہیں بولتے، اور خود اپنے ہی مسلک کے علما سے اختلاف کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ چونکہ اکثریت کا چلن لوگوں کی شریعت بن چکی ہے۔ ”لوگ کیا کہیں گے“ اس دور کا سب سے بڑا خدا ہے۔ اس لئے ایسے فتوے دینے والے بھی انسان ہیں، انہیں بھی اسی معاشرے میں زندہ رہنا ہے، اس لئے وہ لوگ بغاوت نہیں کرسکتے۔
عہدِ حاضر میں اجتہاد کی شدید ضرورت ہے۔ فتویٰ اور اجتہاد میں وہی فرق ہے جو رسمِ اذاں اور روحِ اذان میں ہے۔ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ہماری فکر کے دروازے کھول دیتا ہے۔ فتویٰ رسمِ اذاں ہے جسے قدیم کتابوں سے نکالا جاتا ہے۔ اجتہاد روحِ اذاں ہے جو مستقبل پر نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ جن جن لوگوں نے جہیز اور کھانوں کو خوشی سے دینے کے نام پر جائز کیا، یہ ان کے ذاتی فتوے ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے اپنے خاندانی یا علاقائی ہندوؤانہ طورطریق ہیں، جن کو جائز کرنے کے لئے وہ ایسے فتوے جاری کردیتے ہیں۔ فتوے اکثریت کومطمئن کرنے کے لئے ہوتے ہیں، اجتہاد کسی کی ناراضگی یا خوشی کی پروا نہیں کرتا، اگر اللہ کے حکم کے آگے اولاد کے گلے پر چُھری چلانا پڑے تو چلادیتا ہے، وہ رشتہ داریوں کی پروا نہیں کرتا۔ شادی میں خرافات جائز کرنے اور ان تقریبات میں شرکت کرنے کے جتنے جواز پیش کئے گئے ہیں۔
ان تمام میں شرعی دلائل کم اور مفادات جیسے چندے، تنخواہیں، تعلقات، اکثریت کی ناراضگی کا خوف پوشیدہ ہے۔ آج اجتہاد کی ضرورت ہے۔ حضرت عمرؓ کے تمام کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے اجتہاد کی روایت ڈالی۔ کم سے کم 25 ایسے واقعات لکھے جاسکتے ہیں، جن میں حضرت عمرؓ نے قرآن و حدیث کے احکامات کو بدلتے ہوئے حالات میں کیسے ان کی تعبیر کی جائے اس کی مثالیں قائم کیں۔ کوئی فتویٰ یا کوئی اجماع وحی کی طرح ہمیشہ قائم رہنے والا نہیں ہوتا۔ جہاں مقام اور وقت بدلا، فتویٰ یا اجماع بدل جاتا ہے۔
آج کی جو شادیاں ہیں، وہ فقہی طور پر چاہے جائز ہوں لیکن سماجی، اخلاقی اور مالی طور پر امت کے لئے بے حد نقصان دہ ہیں، یہ تقریبات جیسے منگنی کا کھانا، شادی کے دن کا کھانا، جہیز، جوڑے یا ہُندے کی رقم، وغیرہ ایک نہیں بلکہ کئی حرام کاموں کا مجموعہ ہیں۔ مولوی اور مشائخین کم سے کم سطح پر ایسی تقریبات میں شرکت کیوں حرام ہوجاتی ہے، اس کی تحقیق کریں تو امت کی بہت بڑی خدمت ہوسکتی ہے۔ ورنہ ایک طرف ایسی رسومات کو ناجائز کہنا لیکن دوسری طرف ان میں شرکت کی اجازت دینا ایک کھلی منافقت ہورہی ہے جو برسوں سے جاری ہے۔