رمضان کے بعد مسلمانوں کی صورت حال
اسلامی مضامین

ماہِ شوال کے بعد زندگی کا لائحہ عمل

عید الفطر کا مبارک تیوہار ہمیشہ یکم شوال کو ہی منایا جاتا ہے۔ انگریزی کیلینڈر کے مطابق، امسال (سن 2022ء)، برصغیر ہند میں شوال المکرم کی پہلی تاریخ 3 مئی (منگل) کو واقع ہوئی۔ رمضان المبارک کے درمیان پورے ماہ روزے رکھنا مختلف نوعیت کی ایک منفرد عبادت ہے، جو ﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر فرض کی ہے، تاکہ وہ تقویٰ حاصل کریں (البقرہ-2: 183)۔

ایک ماہ کے لگاتار روزوں کے بعد عید الفطر کے مبارک تیوہار کا انعقاد گویا ﷲ تعالیٰ کی جانب سے اپنے روزہ دار بندوں کے لیے ایک بیش بہا حسین تحفہ(gift) ہے۔ چاند رات میں دئے گئے اجر و ثواب اور انعام و اکرام اس کے علاوہ ہیں۔ مندرجہ بالا تاریخ کے پُر مسرت ماحول میں عید الفطر منائی گئی۔ ہر طرف عید مبارک، عید مبارک کی دل فریب صدائوں نے فضا کو اس طرح خوش گوار اور خوشبو دار بنادیا تھا گویا مسلم معاشرے کو ناقابلِ بیان لافانی خوشیوں سے متعارف کرا دیا گیا ہو۔ بے شک، آج عید کی خوشیاں بظاہر چمک دمک کے زاویہ سے پھیکی پڑ گئی ہوں، مگر کیفیت ابھی پوری طرح باقی ہے۔

افق پر ماہِ شوال کا چاند نظر آتے ہی پوری فضا ‘چاند رات’ ہوجاتی ہے۔ اسی چاند رات کو آسمانی زبان میں ‘لیلتہ الجائزہ’ کہا جاتا ہے، یعنی انعام کی رات۔ جس طرح رمضان المبارک کے دوران صرف ﷲ تعالٰی کے لیے روزے رکھنا، عبادت کرنا اور تقویٰ کی روش اختیار کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری تھی، اُسی طرح انعام کی رات گویا ﷲ تعالٰی کی باری ہے کہ وہ اپنے روزہ دار بندوں کی دنیاوی اور اخروی زندگی کو اجر و ثواب اور انعام و اکرام کی ربانی خوشبو سے معطر کر دے۔ ﷲ تعالٰی کے بے پایاں انعام و اکرام کی بارش کا سلسلہ صبح عید الفطر کی نماز کی ادائیگی تک جاری رہتا ہے۔ عید الفطر کے دن، ﷲ تعالٰی کے غیب میں لئے گئے انعامی فیصلوں کا اثر مومن بندوں کو اپنے ظاہر و باطن میں بھی محسوس ہوتا ہے۔

ایک طرف جہاں خالص نیت اور اعمال صالح انعام و اکرام کی وجہ بنتے ہیں، تو وہیں دوسری طرف ستائس و شاباشیاں بھی مزید ذمہ داری کا احساس پیدا کردیتی ہیں۔ اسی تناظر میں، گیارہ ماہ بعد آنے والے رمضان المبارک تک گزرے ہوئے رمضان المبارک کی خوشبو اور مٹھاس کو بنائے رکھنا ہماری زندگی کا ہدف ہونا چاہیے۔

زیر نظر مضمون میں زندگی کے اسی لائحہ عمل کو وضع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مزید آگے بڑھنے سے پہلے، یہ سمجھنا مناسب رہے گا کہ الگ الگ نہج (mode) پر انسانی زندگی کس طرح کام کرتی ہے۔ ہر کام کی تکمیل کے لیے کم ازکم تین مراحل (stages) درکار ہوتے ہیں، یعنی علمی طور پر چیزوں کو سیکھنا، عملی طور پر ان کو کرکے دیکھنا اور پھر میدان عمل میں کود پڑنا۔ سہہ نکاتی مراحل کی بات کو مزید واضح کرنے کےلیے، میں ذیلی سطور میں اپنی سروس (ملازمت) کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں:

میری کئی سالوں کی سروس اور نمایاں کارکردگی کے پیش نظر، بینک نے ایک اہم فیصلہ لیا کہ ‘غیر ملکی زر مبادلہ’ (Foreign Exchange) کے اختصاصی (specialised) کام کے لیے میرا انتخاب کیا جائے۔ منتخب کئے جانے کے بعد، مگر متعلق ڈپارٹمنٹ میں تقرری سے پہلے مجھے مختلف تربیتی (training) پروگرام سے گزارا گیا۔ کولکاتہ میں بینک کے اپنے ٹریننگ کالج کے علاوہ، مجھے ممبئی میں آر بی آئی (Reserve Bank of India)

کے بی ٹی سی (BTC) نام سے مشہور ٹریننگ کالج میں ’اصول و ضوابط‘ کی ٹریننگ (theoretical training) میں شامل کیا گیا، جہاں فارن ایکسچینج کی علمی نزاکتوں اور اس سے متعلق بین الاقوامی قوانین (International Laws regarding Foreign Trade) سے مفصل طور پر متعارف کرایا گیا۔ علاوہ ازیں، فارن ایکسچینج کے اصول و اطوار کو عملی طور پر کر کے دیکھنے (on the job training) کی غرض سے مجھے کچھ عرصے کے لیے ہماری نئی دہلی میں واقع انٹرنیشنل برانچ میں بھی پوسٹ کیا گیا تھا، جہاں غیر ملکی زر مبادلہ اور بین الاقوامی کاروبار (Foreign Exchange and International Trade) میں با قائدہ کام ہوتا ہے۔ یہاں پر میں نے دوسرے افسروں کے ساتھ مل کر متعلقہ اختصا صی کام کو عملی جامہ پہنانے میں مہارت اور متوقع خود اعتمادی حاصل کی، جس کا مستقبل میں بہت فائدہ ہوا۔

میدان عمل کے طور پر مجھے مختلف انٹرنیشنل برانچوں (branches) میں تعینات کیا گیا۔ اس آخری مرحلہ کے دوران، میں نے ﷲ کی رحمت سے قابل ستائش کام کیا اور بینک کے اندر اور باہر مجھے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ کام پر اچھی پکڑ اور منفرد کارکردگی (exceptional performance) کے نتیجے میں، بینک نے مجھے قریب بارہ سال کی ریکارڈ مدت تک فارن ایکسچینج کے اختصاصی میدان میں کام کرتے رہنے کا موقعہ فراہم کیا۔ بین الاقوامی بینک کاری (International Banking) میں کام کرنا اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے۔

مزکورہ واقعہ کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک کے رحمت و برکت کے ایک ماہی عرصہ کو کس طرح پورے سال کے لیے مفید بنایا جاسکتا ہے۔ اس راہ میں شوال کے مہینے کا کردار بہت اہم ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کے درمیان ﷲ تعالٰی کا حکم اور اس کے لیے تقویٰ اختیار کرنے کی روح (spirit) کو شوال المکرم کے درمیان روزوں کی غیر موجودگی میں اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اختیار کرلینا گویا عملی طور پر کر کے دیکھ لینا (on the job training) ہوگا۔

یقیناً، ماہ شوال کی آن دی جاب ٹریننگ بقیہ سال کے لیے ﷲ کی رضا میں جینا سکھا دے گی۔ اور جب کسی کو ایک بار ﷲ کی رضا میں جینا آجائے تو پھر اس کا کیا کہنا ! شیطان بھی اس سے اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے متعلق رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا تھا کہ انہیں دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ نصیحت اخذ کرنے کے لیے بڑی شخصیات کی مثال پیش کرنا ہی موزوں ہوتا ہے، تاکہ ان کے اسوہ تک پہنچنے کے لے کسی فرد کی تگ ودو اس کو کسی مبارک مقام تک ضرور پہنچا دے۔

ایک معروف امریکی انسان دوست کاروباری شخصیت، ولیم کلیمینت اسٹون (William Clement Stone) نے کہا تھا: “Aim for the moon. If you miss, you may hit a star.” یعنی آپ کا ہدف چاند ہونا چاہیے۔ چاند تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں بھی کسی ستارے تک ضرور پہنچا جاسکتا ہے۔ ( سائنسی معلومات سے قطع نظر، چاند عینی مشاہدہ میں ستاروں سے بڑا اور زیادہ روشن ہوتا ہے)۔ بلا شبہ، انسان کے لیے ضروری ہے کی وہ بڑے مقاصد کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنائے۔

دوپہر ہوتے ہوتے، جب ایک روزہ دار بھوک و پیاس سے بلبلا اٹھتا ہے، تب خدا کے’خوف‘ سے وابستہ روزے کی روح (the spirit of fasting) اس کو حوصلہ فراہم کرتی ہے اور پھر وہ باآسانی ﷲ کے ساتھ ’راضی بہ رضا‘ ہوجانے کا تجربہ حاصل کرتا ہے۔

رمضان المبارک کے بعد بھوک پیاس کی کم و بیش اسی نوعیت کی حالت سے دوچار ہونے کی صورت میں، جب ﷲ تعالٰی کا مومن بندہ اپنے روزہ کی کیفیت کو یاد کر کے صرف اپنے پروردگار کی خوش نودی کی خاطر اپنی تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے، تب گویا وہ اپنے رب کی پسندیدہ ’صبر و شکر‘ کی زندگی جینا سیکھ لیتا ہے۔ اور صبر و شکر کی زندگی جینے والے اپنے بندوں کے لیے ﷲ رب العالمین کی جانب سے خوش خبریاں ہی خوش خبریاں ہیں۔ ”بے شک ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ ( البقرہ-2: 153). ساتھ ہی، ”اور صبر کرنے والوں کو (خدا کی خوش نودی کی) بشارت سنادو“ (البقرہ-2: 155)۔

شکر کے متعلق ارشاد باری تعالٰی ہے : ”اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے“ ( ابراہیم-14: 7)۔ ﷲ تعالٰی کے ’دس گنا‘ قانونِ اجر و ثواب کے مطابق رمضان المبارک کے درمیان ایک روزہ دس دن کا احاطہ کرتا ہے، یعنی تین دن کا وقفہ ایک مہینہ اور تیس دن کا عرصہ دس مہینے۔ اس میں اگر ماہ شوال المکرم کے چھ روزے بھی شامل کر لیے جائیں تو گویا پورے سال روزے رکھنے کی کیفیت حاصل ہوجائے گی۔ اور روزہ داروں کے بارے میں ﷲ تعالٰی کے انعام و اکرام سے کون واقف نہیں؟

رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہيں ہے، مگر مستحب ضرور ہے۔ مسلمانوں کےحق میں یہ نہایت مبارک فعل ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھیں۔ اس طرح وہ ﷲ کے فضلِ عظیم اور بیش بہا اجر و ثواب کے مستحق ہوجاتےہیں۔ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے مہینے میں بھی چھ روزے رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجروثواب لکھ دیا جاتا ہے، گویا اس نے پورے سال روزے رکھے۔ چھ روزوں کا لگاتار رکھنا ضروری نہیں، لیکن ماہ شوال میں ہی رکھے جانے چاہییں۔
پورے سال روزوں کے اجر سے متعلق بات رسول ﷲ ﷺ سے ہی منسوب ہے ( جامع ترمذی)۔

انسان کی فطرت میں بھوک و پیاس کی جبلت سخت ترین ہوتی ہے۔ گویا روزہ کی حالت میں شخصیت کے اسی پہلو کو کنٹرول کرنا سکھایا جاتا ہے۔ روزہ کے اوقات میں ﷲ تعالیٰ کا خوف اور روزہ کی فرضیت اس معاملے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ روزہ کے باہر بھی ضرورت پیش آنے پر ﷲ تعالیٰ سے مدد کی امید کے ساتھ بھوک پیاس پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، اور اس کی شدت کو ’بےلگام‘ نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ کنٹرول کرنے کی آن دی جاب ٹریننگ ماہ شوال میں ہی شروع ہوجانی چاہیے۔ بھوک پیاس کو اول درجہ اس لیے حاصل ہے کہ انسانی زندگی کے جملہ عوامل اسی کیفیت سے وابستہ ہیں۔ کھانے پینے کے متعلق بیشتر لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ”پیٹ کے لیے ہی تو کما رہے ہیں“.

مذکورہ سوچ رکھنے والے افراد کے لیے یہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بھوک پیاس کو زیر کرسکیں۔ صرف پیٹ کے لیے کمانے والوں کے ساتھ ہی اکثر یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ان کی بھوک پیاس صرف کھانے پینے تک ہی محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنےکی ہوس میں مبدل ہوجاتی ہے۔ وقت رہتے اگر اس ہوس کو کنٹرول نہیں کیا جائے تو مال و زر کی ذخیرہ اندوزی اچھے برے کی تمیز سے بھی محروم کردیتی ہے اور انسان جائز اور ناجائز کے امتیاز کو بھول کر شیطان کے ذریعے مزین کئے گئے راستوں پر بھٹکنے لگتا ہے۔

روزہ کے دوران بھوک پیاس کی شدت انسان کو اس کے عجز (helplessness) سے متعارف کراتی ہے، اور انسان کا عجز اس کو اپنے پروردگار کی قدرت کا مشاہدہ کرا دیتا ہے۔ خود کے مخلوق ہونے اور وہ بھی عاجز مطلق ہونے کا ادراک انسان کو اپنے قادر مطلق خالق کائنات کی بڑائی اور عظمت کا شعور فراہم کردیتا ہے۔ انسان کے لیے اپنے رب کی بڑائی اور عظمت کی دریافت ہی ﷲ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ کائنات کے خالق و مالک کی معرفت حاصل ہوجانے کے بعد کوئی بھی انسان جھوٹی شان اور نفسیاتِ استکبار سے آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی حیثیتِ اصلی (cut-to-size) میں واپس لوٹ آتا ہے۔ در اصل، ایک مومن کا اپنی حیثیت اصلی میں جینا گویا ﷲ کے خوف اور خشیت الٰہی میں جینا ہوتا ہے۔

ہم سب کو موجودہ شوال المکرم میں عملی تربیت کے طور پر شروع کرتے ہوئے، آنے والے رمضان المبارک تک قرآن مجید کی آیات میں تدبر اور کائنات کی بے شمار نشانیوں میں تفکر کے ذریعے نئے نئے زاویہ سے ﷲ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی سعئ کرنی ہے۔ اور اپنے ایمان کے درجات کو اس طرح بڑھاتے رہنے کی کوشش کرنی ہے کہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان ہماری اپنی ڈسکوری (دریافت) بن جائے۔

حقیقتاً، ﷲ کا خوف ہی وہ تقویٰ ہے، جس کی روزے کی کیفیت کے زیر اثر ہر روزہ دار میں پیدا ہونے کی توقع کی جانی چاہیے۔
بے شک، ﷲ کا خوف تمام نیکیوں اور دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کی اصل ہے۔ اس لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ” اے ایمان والو ﷲ سے ڈرو“ (الاحزاب-33: 70).

روزے کے دوران بھوک پیاس کی شدت، جس کا ایک روزہ دار تجربہ کرتا ہے، صبر اور شکر کے نئے نئے مواقع فراہم کرتی ہے۔ بھوک پیاس کی شدت انسان کے اس یقین کو پختہ کردیتی ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کا محض ایک عاجز بندا ہے اور ہر چھوٹی بڑی عنایت کے لیے وہ اس کا محتاج ہے۔ اسی کیفیتِ احتیاج کے زیر اثر وہ افطار کی گھڑیوں کا ربانی انتظار کرنے لگتا ہے۔ دراصل، یہی ربانی انتظار ’صبر‘ کہلاتا ہے۔ صبر گویا اپنے عاجز ہونے کے اعتراف، اپنے پروردگار کے قادر مطلق ہونے کے یقین اور خیر کی امیدوں سے وابستگی کے ساتھ جینے کا نام ہے۔ صبر ﷲ تعالیٰ کی وہ بے نظیر نعمت ہے جو کمزور سے کمزور انسان کو بھی بڑے سے بڑے مسائل و مصائب کے دباؤ سے نہ صرف ٹوٹنے سے بچا لیتی ہے، بلکہ فرحت و اطمینان سے بھی ہم کنار رکھتی ہے۔

صبر تخلیق کائنات کی اصل ہے، اس لیے، آنے والے دنوں میں اس بات کی مشق (exercise/practice) جاری رہنی چاہیے کہ کسی بھی حال میں صبر کا دامن نہ چھوٹنے پائے. اسی طرح افطار کے وقت اس حقیقت کا ادراک کہ ﷲ تعالیٰ کی نعمتیں کتنی لا ثانی اور بیش قیمتی ہیں، شکر کے داعیات پیدا کرتا ہے۔ دراصل، بے شمار نعمتیں فراہم کرنے کے لیے اپنے منعم پروردگار کا خلوص دل سے اعتراف ہی شکر کا دوسرا نام ہے۔ رمضان المبارک کے بعد آنے والے مہینوں میں بھی شکر کے جذبات اور احساسات کو سنجیدگی کے ساتھ زندہ رکھنے کی سعئ کی جانی چاہیے۔ جس زندگی میں صبر اور شکر نہیں، گویا وہ زندگی بھی کوئی زندگی نہیں۔

ﷲ تعالیٰ کے لیے روزہ صرف ایک عبادت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے مومن بندوں کے لیے ان کی دنیا اور آخرت کو سنوار نے کا ایک بہترین بندوبست بھی ہے۔ روزہ کے ذریعے بھوک پیاس اور شہوانی جبلتوں پر کنٹرول (control) نہ صرف روزہ دار کی پاکیزگی میں اضافہ کرتا ہے، بلکہ معاشرے کو بھی پاکیزہ اور صحت مند بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

رمضان المبارک میں زندگی بڑی حد تک اصول و ضوابط کی پابند ہو جاتی ہے, اور اچھی اخلاقی اقدار فروغ پاتی ہیں۔ روزوں کے درمیان بری شیطانی عادات کو ترک کرنے کی کوشش، قرآن پاک کی تلاوت اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ نئی نئی دعائوں اور اذکار کے ورد اور یاد کرنے کی جدوجہد فضا کو فکری آلودگی سے پاکیزہ اور معطر بنانے کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ ان ساری کوششوں کو رمضان المبارک کے بعد بھی بروئے کار لانے کا ارادہ اور مسلسل عمل ہمارے کمزور معاشرے کو مستقل طور پر بہتر اور صحت مند بنا سکتے ہیں۔

رمضان المبارک کے روزوں کے بعد روزہ کی کیفیت کو باقی رکھنے کی کوشش مسلمانوں کو سال کے بارہ مہینے ذہنی اور جسمانی آسودگی سے ہم کنار رکھ سکتی ہے۔ زندگی کو اپنے رب کی پسند کی زندگی بنانے کے لیے صرف اتنا ادراک کرلینا کافی ہے کہ صالح اعمال اس لیے کرنے ہیں کہ وہ ﷲ کو پسند ہیں اور اس کا حکم ہیں اور برے اقوال و افعال سے اس لیے پرہیز کرنا ہے کہ وہ ﷲ کو نا پسند ہیں اور ان کو نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی ہاں اور ناں کو عملی طور پر جاننے کا بہترین ذریعہ رمضان المبارک کے روزے ہیں۔ ماہ رمضان کے روزوں کے دوران ﷲ تعالیٰ کی پسند اور ناپسند کی تربیت پر شوال کے مہینے سے ہی اگر مشق (practice) کا سلسلہ جاری کردیا جائے تو موجودہ مسلم معاشرے کو خدا رخی (God oriented) اور آخرت رخی (Hereafter oriented) زندگی جینے میں کوئی دشواری لاحق نہیں ہوگی۔

رمضان المبارک کے روزے روزہ داروں کو ہمہ جہتی نظم و ضبط (discipline) سے نہ صرف بخوبی روشناس کراتے ہیں، بلکہ اسی نہج پر جینا بھی سکھا دیتے ہیں۔ انہیں عادات و اطوار کو عید الفطر کے بعد بھی باقی رکھنے کی سعئ گویا کام یاب زندگی جینے کی ضمانت ہے۔ کم و بیش سبھی روزہ دار اپنے اپنے زاویہ نظر سے وقت کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔ عام طور پر، سحری کے مقررہ وقت کے بعد کوئی بھی کھانے پینے میں لغزش نہیں کرتا۔ ٹھیک اسی طرح، مقررہ وقت سے صرف ایک منٹ پہلے بھی روزہ افطار کرنے کی گستاخی کسی سے سرزد ہوتی ہوئی نہیں دیکھی گئی۔

رمضان المبارک کے دوران ہونے والا ایک دلچسپ مشاہدہ یہ بھی ہے کہ کھیتوں سے لے کر فیکٹریوں میں کام کرنے والوں تک اور اسکول، کالج اور یونی ورسٹی سے لے کر مختلف دفاتر میں کام کرنے والوں تک، سبھی کے لیے یہ آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا کام وقتِ افطار سے پہلے پہلے نہ صرف سمیٹ لیں، بلکہ ختم بھی کر لیں۔ گویا کہ رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کے زیر اثر کام کرنے والے روزہ داروں کی چستی پھرتی بڑھ جاتی ہے۔ خالص نیت اور ہر ہر قدم پر ﷲ تعالیٰ کی مدد کی امید، روزہ داروں کو چاق و چوبند بنائے رکھتی ہے۔ اگر اسی اسپرٹ ( کیفیت) کو رمضان کے بعد کے مہینوں میں بھی نیت اور عمل کی پاکیزگی اور اپنے پروردگار سے بر وقت مدد کی امید کے جذبات کے ساتھ زندہ رکھا جائے تو نتائج خوش آئند ہو سکتے ہیں۔ چوں کہ الله تعالٰی کے دس گنا اجر والے فارمولے سے ہر مہینہ رمضان کے مہینے کے مترادف ہوجاتا ہے، اس لیے ﷲ تعالیٰ سے عطا و عنایت کی درخواست ہر مہینے کو رمضان کے مہینے کے مثل بنا سکتی ہے۔

رمضان المبارک کے مہینے میں تراویح کی شکل میں زاید نماز پڑھنے کی وجہ سے، معمول کے مقابلے زیادہ نماز پڑھنا بھی آسان لگنے لگتا ہے۔ اس آسانی کا فائدہ اگلے مہینوں میں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور فرض نمازوں کے ساتھ نوافل کا بھی کثرت کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔ نفل نمازوں کی کثرت کے ساتھ ہی، رمضان کے پاکیزہ مہینے میں تلاوت قرآن کا بھی بہت زور رہتا ہے۔ تراویح میں قرآن سننا اور خود سے صبح وشام تلاوت کرنا گویا قرآن پاک سے روزہ داروں کی وابستگی بڑھ جاتی ہے۔ اسی تناظر میں بعد کے مہینوں کے لیے قرآن مجید سے وابستگی کا لائحہ عمل کچھ مختلف صورت میں وضع کیا جانا چاہیے۔

رمضان کے دوران اگر فوکس (focus) قرآن کی تلاوت پر تھا تو اب فوکس قرآن کے مطالعہ پر ہونا چاہیے۔ مطالعہ سے مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم کو تدبر اور تفکر کے ساتھ سمجھ کر پڑھنا۔ اس کا ہدف کچھ اس طرح وضع کیا جائے کہ اگلے رمضان المبارک تک کم از کم ایک مرتبہ معنی اور مطالب کے ساتھ پورے قرآن کا مطالعہ مکمل ہو جائے۔ بچوں کو مزید باریکی کے ساتھ قرآن پڑھانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے اخذ کئے گئے اسلامی اخلاقیات کے سنہرے اور مبارک اصولوں کو بھی عملی طور پر زندگی میں شامل کیا جانا چاہیے، تاکہ زندگی با معنی اور با وقار ہوسکے۔

اس حقیقت کا ادراک کہ ﷲ تعالیٰ کے خزانے لا محدود ہیں، قرآن کے اس ارشاد سے بخوبی کیا جاسکتا ہے : ”زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی ﷲ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ بے شک ﷲ زبردست اور حکیم ہے“ ( لقمان-31: 27).

اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے اس کی شان کے مطابق رحمتیں، نعمتیں اور برکتیں مانگنے کا شعور پیدا کریں۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ، دنیا بھر کے انسانوں کے حق میں ہدایت اور خیر کی دعائیں کرنا اپنا معمول بنا لیں۔ اپنے رب سے ہدایت اور خیر کی دعائیں کرنا ہمیشہ باعث خیر ہی ہوتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے خزانے چوں کہ انسانی تصورات اور تخیلات سے بھی زیادہ ہیں، اس لیے دعا کی قبولیت کے متعلق کسی کو کسی بھی طرح کے تذبذب کا شکار ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہم سب کو اپنے ظاہر و باطن کی پاکیزگی کے ساتھ ﷲ تعالیٰ کے حضور صرف اپنی بات رکھنی چاہیے۔ فیصلے کرنا اور حکم سنانا ﷲ کا کام ہے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں مشروط دعائوں کا بھی چلن ہوگیا ہے۔ ﷲ کی پناہ، ‘مشروط دعا’ کی جسارت کہیں گستاخی پر سر کشی کا اضافہ نہ ہو جائے۔ کئی ائمہ حضرات مفروضہ ‘ظالموں’ کے لیے ہدایت کی دعا مانگنے کی دریا دلی تو دکھاتے ہیں، مگر جلد ہی وہ کچھ اس طرح، اپنی شرطوں کا بھی اظہار کرنے لگتے ہیں : ” اے ﷲ، ان ظالموں کے نصیب میں اگر ہدایت نہ ہو تو ان کو نیست و نابود کردے“.
اس طرح کی بد دعائیں سن کر میں اکثر لرز جاتا ہوں کہ کہیں بد دعا کرنے والے کو ہی ظالموں کے خانہ میں نہ پٹخ دیا جائے۔ نعوذ باللہ، یہ ﷲ پاک کی بڑائی اور اس کی عظمت کی تصغیر ہے کہ ہم اسے مشورہ دیں کہ کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا۔ کیا ہدایت کی دعا اپنے آپ میں کافی نہ تھی؟

تحقیق اور تصدیق کئے بغیر کسی مفروضہ ظالم کو ظالم قرار دینا، خود بھی ظلم کا ہی ایک فعل ہے۔ الله تعالٰی کی مخلوق ہونے کے ناطے، سبھی انسان قابل احترام ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کی ذمہ داری اس سے بھی زیادہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان دنیا کے سارے انسانوں کےلیے داعی ہیں۔ داعی کے ذمہ مدعو کو قرآن کا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ، ان کے حق میں ہدایت اور خیر کی دعائیں کرنا بھی لازم ہے۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بد دعا کا ارتکاب کرنے والوں کو توبہ کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ وہ اپنی اصلاح کرسکیں۔