ممبئی: مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے کہا کہ اگر کسی نے زبردستی مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی کوشش کی تو ان کی ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (اے) کے کارکنان مساجد کی حفاظت کریں گے۔ مرکزی وزیر مملکت نے کہا کہ ان کی پارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مسلم کمیونٹی کو ناانصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم مسجد کے باہر ہنومان چالیسہ بجانے کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن ہماری مخالفت مہاراشٹر نو نرمان سینا کے مساجد سے لاؤڈ سپیکر اتارنے کے مطالبے سے ہے۔ اگر کوئی مساجد سے زبردستی لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو آر پی آئی (اے) کے کارکنان مساجد کی حفاظت کریں گے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ”ان لاؤڈ سپیکر کے والیوم کو کم کرنے کے لیے ہدایات دی جا سکتی ہیں۔ بھلے ہی بی جے پی نے ایم این ایس کے مطالبے کی حمایت کی ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میری پارٹی ایسے اقدام کے حق میں ہے۔ اگر راج ٹھاکرے ان لاؤڈ اسپیکروں کو ہٹانے کا الٹی میٹم دیتے ہیں، تو میری پارٹی کے کارکنان مساجد کی حفاظت کریں گے‘‘۔
اٹھاولے نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ”مسجدوں کے اوپر طویل عرصے سے لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں، پھر اب یہ مسئلہ کیوں اٹھا رہے ہیں؟ راج ٹھاکرے کے اس دعوے کے برعکس کہ لاؤڈ اسپیکر ایک سماجی مسئلہ ہے، یہ درحقیقت ایک مذہبی مسئلہ ہے‘‘۔
وہیں دوسری جانب کانگریس کے سینئیر رہنما ڈگ وجئ سنگھ نے لاؤڈ اسپیکر معاملے پر کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے نمٹنے میں مرکز کی بی جے پی زیرقیادت حکومت کی ناکامی سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے مساجد کے اوپر لاؤڈ اسپیکر کے تنازع کو اچھالا جارہا ہے۔
لاؤڈ اسپیکر تنازع پر سوال پر سنگھ نے کہا "یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ اس طرح کی چیزوں کے ذریعے لوگوں کی توجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ ان مسائل پر مرکزی حکومت کی ناکامی کے بارے میں نہ سوچیں۔
انہوں نے کہا کہ 10 اپریل کو رام نومی کے تہوار کے دوران تشدد کے بعد کھرگون میں نافذ کرفیو ریاستی حکومت کی ناکامی تھی کیونکہ وہ لوگوں میں ہم آہنگی بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہاں سے نکالے گئے ایک رام نومی جلوس میں مسلمانوں نے حصہ لینے والوں کو پانی اور "شربت” پیش کرتے ہوئے دیکھا تھا، لیکن کچھ دیر بعد دوپہر میں ایک اور مذہبی جلوس نکالا گیا، جس کی ضرورت نہیں تھی۔ ڈگ وجئے سنگھ نے مزید کہا کہ ملزمین کے خلاف عدالتی تحقیقات کا آغاز کیا جانا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی برادری سے تعلق رکھتے ہوں۔