ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے.
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اس نے سال بھر روزے رکھے۔ (صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ملتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (سورة الانعام)
تو اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو دس مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے چھ روزے رکھے گا تو 60 دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر بارہ مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔
مذکورہ فضیلت کے علاوہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں، شوال کے ان چھ روزوں سے اللہ تعالیٰ اس کوتاہی اور کمی کو دور فرمادیتے ہیں۔
اس طرح ان چھ روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے وہی نسبت ہوگی جو سنن ونوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ سنن ونوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا فرمادیتا ہے جیساکہ واضح طور پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔
شوال کے 6 روزے مسلسل رکھنا ضروری نہیں ہیں:
احادیث میں چھ روزے مسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ہے، لہذا یہ چھ روزے ماہ شوال میں عید الفطر کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی۔ غرضیکہ رمضان کے فوراً بعد یا لگاتار رکھنا کوئی شرط نہیں ہے، ماہ شوال میں کبھی بھی مسلسل یا بیچ میں ناغہ کرکے 6 روزے رکھنے سے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
شوال کے 6 روزے شروع کرنے کے بعد ان کا مکمل کرنا ضروری نہیں:
اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ہے.
اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر کسی سال نہ رکھ سکے تو وہ گناہگار نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے۔