صدقۂ فطر۔ احکام و مسائل
اسلامی مضامین

صدقۂ فطر۔ احکام و مسائل

فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اس صدقہ کا نام صدقہ فطر ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے

زکوة کی دو قسمیں ہیں: زکوة المال: یعنی مال کی زکوة جو مال کی ایک خاص مقدار پر فرض ہے۔ زکاة الفطر: یعنی بدن کی زکاة، اس کو صدقة فطر کہا جاتا ہے۔

صدقہ فطر کیا ہے:

فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اس صدقہ کا نام صدقہ فطر ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : صدقہ فطر روزہ دار کی بے کار بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابو داود)

صدقہ فطر مقرر ہونے کی وجہ:

عید الفطر میں صدقہ اِس واسطے مقرر کیا گیا ہے کہ اِس میں روزہ داروں کے لئے گناہوں سے پاکیزگی اور ان کے روزوں کی تکمیل ہے۔ نیز مالداروں کے گھروں میں تو اس روز عید ہوتی ہے، مختلف قسم کے پکوان پکتے ہیں، اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، جبکہ غریبوں کے گھروں میں بوجہ غربت اسی طرح روزہ کی شکل موجود ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے مالدار اور اچھے کھاتے پیتے لوگوں پر لازم ٹھہرایا کہ غریبوں کو عید سے پہلے صدقہ فطر دے دیں تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، وہ بھی اچھا کھا پی سکیں اور اچھا پہن سکیں۔

صدقہ فطر کا وجوب:
متعدد احادیث سے صدقہ فطر کا وجوب ثابت ہے۔ ** حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے خواہ وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (بخاری ومسلم)
** حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ (ابوداود)
** اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ایک منادی کو اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (ترمذی)

صدقہ فطر کس پر واجب ہے:

حضور اکرم کے اقوال کی روشنی میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے کے مطابق جو مسلمان اتنا مالدار ہو کہ ضروریات سے زائد اس کے پاس اتنی قیمت کا مال واسباب موجود ہو جتنی قیمت پر زکوة واجب ہوتی ہے تو اس پر عید الفطر کے دن صدقہ فطر واجب ہوگا، چاہے وہ مال واسباب تجارت کے لئے ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزرے یا نہیں۔

غرضیکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے زکوة کے فرض ہونے کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ دیگر علماءکے نزدیک صدقہ فطر کے وجوب کے لئے نصاب زکوة کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے یعنی جس کے پاس ایک دن اور ایک رات سے زائد کی خوراک اپنے اور زیر کفالت لوگوں کے لئے ہو تو وہ اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے۔

صدقہ فطر کے واجب ہونے کا وقت:

عید الفطر کے دن صبح ہوتے ہی یہ صدقہ واجب ہوجاتا ہے۔ لہذا جو شخص صبح ہونے سے پہلے ہی انتقال کرگیا تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوا اور جو بچہ صبح سے پہلے پیدا ہوا تو اس کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیا جائے گا۔

صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت

صدقہ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نمازِ عید سے پہلے ہے البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز کے لئے جانے سے قبل ادا کردیا جائے۔ (بخاری ومسلم شریف)

حضرت نافع ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقہ فطر دیتے تھے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے ہی ادا کردیتے تھے۔ (بخاری شریف) نمازِ عید الفطر کی ادائیگی تک صدقہ فطر ادا نہ کرنے کی صورت میں نمازِ عید کے بعد بھی قضا کے طور پر دے سکتے ہیں لیکن اتنی تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں ہے کیونکہ اِس سے صدقہ فطر کا مقصود ومطلوب ہی فوت ہوجا تا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کردیا تو یہ قابل قبول زکاة (صدقہ فطر) ہوگی اور جس نے نماز کے بعد اسے ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہی ہے۔ (ابوداود ) لہذا نماز عید سے قبل ہی صدقہ فطر ادا کریں۔

صدقہ فطر کی مقدار

کھجور اور کشمش کو صدقہ فطر میں دینے کی صورت میں علماءامت کا اتفاق ہے کہ اس میں ایک صاع (نبی اکرم ﷺ کے زمانہ کا ایک پیمانہ) صدقہ فطر ادا کرنا ہے البتہ گیہوں کو صدقہ فطر میں دینے کی صورت میں اس کی مقدار کے متعلق علماءامت میں زمانہ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ اکثر علماءکی رائے ہے کہ گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر میں ادا کیا جائے۔ حضرت عثمان، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت اسماءرضی اللہ عنہم سے صحیح سندوں کے ساتھ گیہوں میں آدھا صاع مروی ہے۔ علماء بھی مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر میں گیہوں آدھا صاع ہے، یہی رائے مشہور ومعروف تابعی حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی بھی ہے۔

صدقہ فطر میں آدھا صاع گیہوں کے دلائل :
* حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جَو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع صدقہ فطر دیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے گیہوں سے صدقہ فطر نکالنے کے سلسلہ میں ان سے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا کہ گیہوں سے صدقہ فطر میں آدھا صاع دیا جائے، چنانچہ لوگوں نے اسی کو معمول بنا لیا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم شریف)۔

* نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: گیہوں کے ایک صاع سے دو آدمیوں کا صدقہ فطر ادا کرو۔ کھجور اور جو کے ایک صاع سے ایک آدمی کا صدقہ فطر ادا کرو۔ (دار قطنی، مسند احمد)
* حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ضروری قرار دی۔ صحابہ کرامؓ نے گیہوں کے آدھے صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ (بخاری ومسلم)
* حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر ہر چھوٹے بڑے اور آزاد و غلام پر گیہوں کا آدھا صاع اور کھجور وجو کا ایک صاع ضروری ہے۔ (اخرجہ عبدالرزاق )
* حضرت اسماءرضی اللہ عنہا صدقہ فطر میں گیہوں کا آدھا صاع اور کھجور وجو کا ایک صاع ادا کرتی تھیں۔ (اخرجہ ابن ابی شیبہ)

وضاحت: صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ فطر میں ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کھانے کی اشیاءسے دیا جائے اور کھانے کی اشیاءسے مراد جو یا کھجور یا پنیر یا کشمش ہے جیساکہ اس حدیث کے خود راوی صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے۔ لیکن اس میں کسی بھی جگہ گیہوں کا تذکرہ نہیں ہے، غرضیکہ نبی اکرم ﷺکے اقوال میں کسی بھی جگہ مذکور نہیں ہے کہ گیہوں سے ایک صاع دیا جائے، ہاں حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب حتی کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں موجود ہے کہ صدقہ فطر میں گیہوں دینے کی صورت میں صحاب? کرام آدھا صاع(یعنی تقریباً پونے دو کیلوگرام) گیہوں دیا کرتے تھے جیساکہ مندرجہ بالا احادیث میں مذکور ہے۔

* اکثر علماءکے قول کے مطابق جو یا کھجور یا کشمش کا ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین کیلو) یا گیہوں کا نصف صاع (تقریباً پونے دو کیلو ) یا اسکی قیمت صدقہ فطر میں ادا کرنی چاہئے لیکن اختلاف سے قطع نظر اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے اور وہ گیہوں سے بھی ایک صاع یا اس کی قیمت دینا چاہتا ہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے۔

کیا غلہ واناج کے بدلے قیمت دی جاسکتی ہے؟

حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام بخاریؒ ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ ، حضرت حسن بصریؒ ،علماءاحناف اور دیگر محدثین وفقہاءوعلماءنے تحریر کیا ہے کہ غلہ واناج کی قیمت بھی صدقہ فطر میں دی جاسکتی ہے۔ زمانہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اب تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کا اتفاق ہے کہ عصر حاضر میں غلہ واناج کے بدلے قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔

صدقہ فطر میں گیہوں کی قیمت دینے والے حضرات تقریباً پونے دو کیلو گیہوں کی قیمت بازار کے قیمت کے اعتبار سے ادا کریں اور جو مالدار حضرات کھجور یا کشمش سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہیں تو وہ ایک صاع یعنی تقریباً ساڑھے تین کیلو کی قیمت ادا کریں، اس میں غریبوں کا فائدہ ہے۔

صدقہ فطر کے مستحق کون ہیں؟
صدقہ فطر غریب وفقیر مساکین کو دیا جائے،
صدقہ فطر دوسرے شہر یا دوسرے ملک بھیجا جاسکتا ہے:
ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے (یعنی جہاں آپ رہ رہے ہیں مثلاًریاض میں تو وہیں صدقہ فطر ادا کریں)۔ ہاں اگر دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں غریب رشتہ دار رہتے ہیں یا وہاں کے لوگ زیادہ مستحق ہیں تو ا±ن کو بھیج دیا جائے تو مکروہ نہیں ہے۔

صدقہ فطر سے متعلق چند مسائل

** ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دیا جاسکتا ہے۔
** جس شخص نے کسی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے ا±سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا چاہئے۔
** آج کل جو نوکر چاکر اجرت پر کام کرتے ہیں ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا مالک پر واجب نہیں ہے۔