رمضان المبارک رحمتوں‘ برکتوں‘ سعادتوں اور نیکیوں کا مبارک مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے مومن بندوں پر روزہ فرض کیا گیا جبکہ تراویح کی شکل میں قیام اللیل کو مسنون قرار دیا گیا اور ان کے علاوہ دیگر نیک اعمال کا اس ماہ مبارک میں مومن بندوں کو حکم دیا گیا ہے۔
اللہ کے نیک بندے اپنی استطاعت کے مطابق نیک اعمال کی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس مبارک ماہ کو اپنے رب کی خوشنودی میں گزارنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ جب بندے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو قیام اللیل کرتے ہیں اور دیگر نیک اعمال کرتے ہیں تو ارحم الراحمین بھی ان پر رحم فرماتا ہے۔ وہ ربِ کریم یوں تو ہر افطار کے وقت لاکھوں لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کرتا ہے، لیکن خصوصیت سے رمضان المبارک کی آخری رات میں یہ بخشش و عطا عام ہوتی ہے۔
لیلۃ الجائزہ کی فضیلت
عید الفطر کی رات کو’ لیلۃ الجائزۃ’ کہا جاتا ہے، عربی زبان میں جائزہ کے معنی ہیں ‘انعام’۔ اس کو انعام کی رات اس لیے کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں روزے دار نے اللہ کو راضی کرنے کے لئے جو مشقت اور تکلیف برداشت کی ہے، اس کے انعامات اس رات میں تقسیم کیےجاتے ہیں۔
حدیث کے مطابق جب عید الفطرکی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات سے لیا جاتا ہے۔سُمِّيَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةُ لَيْلَةَ الْجَائِزَةِ.(شعب الایمان بیہقی)
لیلۃ الجائزہ خاص امتِ محمدیہ کے لیے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیتیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا:اے اللہ کے رسول !کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:نہیں، یہ رات شبِ قدر نہیں بلکہ یہ اس لیے ہے کہ کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہی۔(کشف الاستار)
عیدین کی راتوں کی فضیلت
علاوہ ازیں عیدین کی راتوں میں عبادت کا ذکر تو متعدد احادیث میں موجود ہے۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:جو عیدین کی راتوں میں جاگ کر عبادت کا اہتمام کرے گا، اس کا دل اس وقت بھی زندہ رہے گا،جس وقت سب کے دل مردہ ہو جائیں گی۔(ابن ماجہ،طبرانی اوسط)
فضیلت والی پانچ راتیں
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت نبی کریمﷺ سے نقل فرماتے ہیں : جو شخص چار راتوں کو عبادت کے ذریعے زندہ کرے،اُس کے لیے جنّت واجب ہوجاتی ہے ؛ لیلۃ الترویۃ یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات، عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی رات ، لیلۃ النحر یعنی دس ذی الحجہ کی رات اور لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب۔(أخرجہ ابن عساکر فی تاریخہ)اور الترغیب و الترہیب میں پانچ راتوں کا ذکر ہے، جن میں سے پانچویں شعبان کی پندرھویں شب یعنی شبِ براءت ہے۔(الترغیب و الترہیب للمنذری)نیز حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے موقوفاً مروی ہے؛ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا کو ردّ نہیں کیا جاتا؛ جمعے کی شب ، رجب کی پہلی شب ، شعبان کی پندرھویں شب ، اور دونوں عیدوںکی راتیں۔(مصنف عبد الرزاق ، سنن بیہقی)
اسی لیے دونوں عید کی راتوں میں عبادت کرنا فضیلت اور ثواب کا کام ہے، اسے فقہا نے مستحب قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں دعا قبول ہوتی ہے۔
لیلۃ الجائزہ کی فضیلت و ترغیب میں وارد روایات پر محدثین کو کلام سہی، اس کے باوجود یہ تو قرآن سے ثابت ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ۔ ﴿(التوبہ)یعنی اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی تو نوازنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ روزہ و تراویح کے ذریعے رمضان کورس مکمل کرکے آنے والوں کو ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہوگا اور ربِ کائنات انسان کی اس محنت سے راضی ہوتا ہوگا اور رب کی رضا ہی عبدیت کا سب سے بڑا مقام ہے۔ اس لیے جو حضرات عید الفطر کی رات میں عبادتیں کرنا چاہیں، وہ ضرور اس موقع سے فایدہ اٹھائیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں یہ زرین موقع عنایت فرمایا ہے تو حسبِ استطاعت نیکیاں کریں، عید کی خریدی کے نام پر بازاروں کی زینیت نہ بنیں اور نہ ہی فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہنم سے نجات کا پروانہ نصیب فرمائے اور ہمارے روزوں‘ تراویح اور دیگر نیک اعمال کو قبول فرمائے اور بار بار ہماری زندگیوں میں رمضان المبارک لائے اور ہمیں اس میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین