اسلامی مہینوں کا آغاز چاند کی رویت پر مبنی ہے، یعنی چاند کے نظر آنے پر مہینہ 29 دن ورنہ 30 دن کا شمار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزہ کے متعلق امت مسلمہ کو حکم دیا:” میں سے جو شخص ماہ رمضان کو پالے اس پر لازم ہے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔ لہذا ماہِ رمضان ودیگر مہینوں کی ابتداءاور ان کے اختتام کو احادیث نبویہ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں:٭ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر ہی عید کے لئے افطار کرو۔ (بخاری شریف)
عید الفطر کی رات میں بھی عبادت کرنی چاہئے:٭
عید الفطر کی شب میں عبادت کرنا مستحب ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے متعلق میری امت کو خاص طور پر پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزار ، بیہقی، ابن حبان)
معلوم ہوا کہ عید کی رات میں بھی ہمیں عبادت کرنی چاہئے اور اِس بابرکت رات میں خرافات میں لگنے اور بازاروں میں گھومنے کے بجائے عشاءاور فجر کی نمازوں کی وقت پر ادائیگی کرنی چاہئے، نیز تلاوتِ قرآن ، ذکر واذکار اور دعاؤں میں اپنے آپ کو مشغول رکھنا چاہئے یا کم از کم نمازِ عشاءاور نماز فجر جماعت کے ساتھ ادا کریں۔
” عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو نئے کپڑے پہنے بلکہ اس کے لئے ہے جو عید سے امن میں (یعنی برے کاموں سے بچتا رہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا مستحق ہوا ور اس کے عتاب سے امن میں رہے) عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو عود کی خوشبو سے معطر ہو بلکہ اس کے لئے ہے جو توبہ کرنے والا ہو کہ پھر گناہ نہ کرے عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو آرائش دنیا کی زینت اختیار کرے بلکہ اس کے لئے ہے جو تقوی (پرہیزگاری) کو آخرت کے لئے زاد راہ بنائے۔ عید اس آدمی کے لئے نہیں ہے جو سواریوں پر سوار ہو بلکہ اس کے لئے ہے جو گناہوں کو ترک کرے۔ اور عید اس آدمی کے لئے نہیں جو ( آرائش و زیبائش کے) فرش بچھائے بلکہ اس کے لئے ہے جو پل صراط سے گذر جائے گا "۔
عید الفطر کے بعض مسائل اور احکام:۔
اسلام نے عید الفطر کے موقع پر شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے مل جل کر خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے۔ احادیث میں وارد ہے کہ حضور اکرم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں دیکھا کہ لوگ دو دنوں کو تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ آپ ﷺ نے جب اہل مدینہ سے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، تو انصار نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانہ¿ قدیم سے ان دونوں دنوں میں خوشیاں مناتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دودنوں سے بہتر دو دن مقرر فرمائے ہیں،ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ (ابوداود)
٭ عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے جیساکہ حضور اکرم ﷺ کے ارشادات میں وارد ہوا ہے۔
٭ عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب ِاستطاعت عمدہ کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، صبح ہونے کے بعد عید کی نماز سے پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا، عید کی نماز کیلئے جانے سے پہلے صدقہ¿ فطر ادا کرنا، ایک راستہ سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کے لئے جاتے ہوئے تکبیر کہنا یہ سب عید کی سنتوں میں سے ہیں۔
٭ حضور اکرم ﷺ عید الفطر میں نماز سے پہلے کچھ کھاکر جاتے تھے اور عید الاضحی میں بغیر کھائے جاتے تھے۔ (ترمذی)
٭ عید الفطر کے روز نماز عید سے قبل نماز اشراق نہ پڑھیں۔ (بخاری ومسلم)
٭ عید الفطر کے دن دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ بطور شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔
٭ عید الفطر کی نماز کا وقت طلوع ِآفتاب کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے۔
٭ عید الفطراور عید الاضحی کی نماز میں زائد 6 تکبیریں بھی کہی جاتی ہیں۔
٭ عید کی نماز کے بعد امام کا خطبہ پڑھنا سنت ہے، خطبہ شروع ہوجائے تو خاموش بیٹھ کر اس کا سننا واجب ہے۔ جو لوگ خطبہ کے دوران بات چیت کرتے رہتے ہیں یا خطبہ چھوڑکر چلے جاتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔