اسلام کے ایک بنیادی رکن کے طور پر روزہ کی فرضیت گویا یہ اعلان کر رہی ہے کہ الله تعالٰی اپنے بندوں کو مومن ہونے کے ساتھ ساتھ متقی بھی دیکھنا چاہتا ہے، کیوں کہ روزے فرض کرنے کا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے ک اس کے بندے تقویٰ حاصل کریں (البقرہ-2: 183).
اسی کے ساتھ، رمضان المبارک میں پورے مہینے کے دوران روزے رکھنے کی ہدایت میں واضح اشارہ موجود ہے کہ ہمارا مہربان پروردگار ہماری شخصیت کو مستقل طور پر ‘تقویٰ’ سے آراستہ کردینا چاہتا ہے۔
الله تعالٰی نے ہمیں بقدر استطاعت تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، یعنی "پس تم الله کا تقویٰ اختیار کرو جہاں تک ہوسکے” (التغابن-64: 16)
قرآن پاک کی مذکورہ بالا دونوں آیات کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ضعف (infirmity) اور عجز (helplessness) سے واقف ہمارا خالق و مالک خود ہمیں ہماری استطاعت کے مطابق ہی تقویٰ کا مکلف ٹھہراتا ہے، اور ہر سال مسلسل ایک مہینے تک روزوں کے ذریعے تقویٰ کی تربیت کرا کر گویا وہ ہمیں حقیقی معنیٰ اور فطری نوعیت میں متقی بنا دینا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ تقویٰ کے بغیر زندگی کتنی ادھوری ہے۔ اس لیے، رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہر ایک مسلمان کو تقویٰ یا دوسرے الفاظ میں تزکیۂ نفس کی بلندیاں چھونے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رمضان المبارک کے بابرکت اور پاکیزہ مہینے کو فضیلت کے اعتبار سے تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عمومی طور پر گھر اور مدرسہ کی بنیادی تعلیم سے محروم، نئی نسل کی جان کاری کے لیے عرض ہے کہ دس دن کے عرصہ کو ‘عشرہ’ کہتے ہیں۔ فضیلت کے باب میں پہلے عشرہ کو رحمت، دوسرے کو مغفرت، تیسرے اور آخری عشرہ کو دوزخ سے خلاصی ( یعنی جنت میں داخلہ ) کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ الگ الگ نام ہونے کے باوجود، فضیلتوں اور برکتوں سے معمور ماہِ رمضان المبارک کا ہر ایک عشرہ، یہاں تک کہ ہر ایک دن الله تعالیٰ کی بے پایاں رحمت و عنایات کا ہی مظہر ہے۔ دنیا کی زندگی جینے کی غرض سے کسی شخص کے مختلف اور متعدد اہداف (targets) ہوسکتے ہیں، لیکن ایک سچے اور مخلص مومن کی زندگی کا حقیقی ہدف صرف ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ ہے مرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ‘جنت الفردوس’۔
اسلام کے مختلف ذرائع علم سے حاصل معلومات کی روشنی میں، جنت ایک ایسی معیاری اور بے نظیر دنیا ہے، جس کو الله تعالٰی نے اپنے مومن اور فرماں بردار بندوں کے لیے خصوصی اہتمام سے بنایا ہے۔ مومنین کے مقام و مرتبہ کے مطابق، جنت کے بھی بہت سے درجات ہیں۔ الله تعالٰی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ (الحجرات-49: 13)
جنت کے مختلف درجات میں بہترین محل و باغات کا نام جنت الفردوس یے۔ جنت الفردوس میں وہ اعلیٰ مومن شخصیات آباد کی جا ئیں گی جن سے الله رب العالمین راضی ہوگا۔ الله کی رضامندی حاصل کرنے والوں میں وہ نیک افراد پیش پیش ہوں گے جنہوں نے دنیاوی عیش و آسائش کو ہمیشہ دوسرے درجہِ میں جگہ دی۔ ان کی نظر میں اول درجہ جس چیز کو حاصل رہا وہ ہے اپنے رب کی معرفت اور عظمت و کبریائی کے ادراک کے ساتھ، ہر معاملہ میں صرف اسی کی مرضی کی طرف دیکھنا اور ‘لبیک’ کہنا۔
جنت کی خواہش گویا اپنے رب کی رضامندی حاصل کرنے کی تمنا ہے، جب کہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے رمضان سے افضل اور مبارک مہینہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ روزہ کے اجر کو الله تعالٰی نے اگر بے حساب مقرر کر دیا ہے، تو رمضان المبارک کے دوران کئے گئے سبھی چھوٹے بڑے اعمالِ صالح کے لیے بھی اسی کی طرف سے بڑے بڑے انعام و اکرام کی خوش خبری مختلف صورتوں میں نشر کر دی گئی ہے۔
خوش نصیب ہیں وہ مومنین جن کو نہ صرف رمضان کا مقدس مہینہ حاصل ہوتا ہے، بلکہ وہ شب و روز نازل ہونے والی الله کی رحمتوں اور برکتوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں؛ اور ان کا تو کیا کہنا، جن کو اس درمیان اپنے مہربان رب کی خوش نودی بھی حاصل ہوجائے۔ ماہِ رمضان میں ہر خیر کے حصول کو الله تعالٰی نے اپنے بندوں کے لیے آسان کردیا ہے۔ اس بات پر پوری امت مسلمہ متفق سمجھی جاتی ہے کہ رمضان کے مبارک مہینہ میں الله تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے، اس کے بندوں کی گناہوں سے مغفرت ہونے اور جہنم سے چھٹکارہ حاصل کرنے سے متعلق تینوں فضیلتیں رسول الله صلى الله عليه وسلم سے منسوب ہیں۔
آخری عشرے کو تو الله تعالٰی نے گویا اپنی بے پایاں عنایات سے مزید مزین اور لبریز کردیا ہے۔ رمضان کی جملہ نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ساتھ، آخری عشرہ کو ‘لیلتہ القدر’ سے بھی وابستہ کر دیا گیا ہے، جو خود ایک ہزار راتوں سے افضل ہے۔ اسی کے ساتھ آخری عشرہ میں اپنے پروردگار کی قربت حاصل کرنے کےلیے ‘اعتکاف’ کی صورت میں ایک ربانی بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ گویا کہ ہم سب کے لیے، ہمارے خلوص کے بقدرِ، الله تعالٰی کا بے حساب فیضان حاصل کرنے کا مبارک عشرہ ہے۔
ہائی اسکول/ ہائر سیکنڈری اسکول بورڈ کے امتحانات میں عمومی طور پر تین تین گھنٹے کی مدت کے پیپر (پرچے) ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کو تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ شروع کے دو گھنٹوں میں سوال حل کرنے کا فوکس (focus) نسبتاً کمزور ہوتا ہے، جب کہ آخر کے ایک گھنٹے میں پہلے دو گھنٹوں سے زیادہ سوالات حل ہوجاتے ہیں۔ امتحان کا آخری گھنٹہ گویا "ڈو آر ڈائی” (do or die) کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ نتیجتاً، آخری گھنٹے کی کارکردگی پہلے دو گھنٹوں کی کارکردگی پر بھاری ثابت ہوتی ہے۔
رمضان المبارک کے دو عشرے گزر جانے کے بعد، تیسرے اور آخری عشرہ کو، اوپر درج مثال کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اس طرح مومن بندے اپنے پروردگار کے ساتھ اپنی قربت کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔
وقت تو ہمیشہ ہی قیمتی ہوتا ہے، مگر رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے اس عشرہ کا استعمال نہایت سنجیدہ اور ہمہ جہتی (multi dimensional) ہونا چاہیے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ اس کا ایک بھی لمحہ ضائع نہ ہونے پائے۔ موجودہ وقت میں موبائل نے لوگوں کے ٹائم مینِجمینٹ (time management) کو کافی حد تک درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا ایک حیرت انگیز شاہکار (The marvel of modern technology) ہونے کے باوجود، آج موبائل بلا شبہ، ڈسٹریکشن (distraction) کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ معمولی سی غیر سنجیدگی بھی، آپ کو با آسانی اپنی منزل سے بھٹکا سکتی ہے۔ اس لیے، اس مبارک عشرے کے درران موبائل کا استعمال بنیادی نوعیت کا ہی ہونا چاہیے۔ اس عرصہ کے دوران، مسلمانوں کو موبائل کے تفریحی نوعیت کے استعمال کو یکسر ترک کر دینا چاہیے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں، موبائل کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا مناسب رہے گا، جس کا مشورہ شاعر مشرق، علامہ اقبال نے ‘دِل’ کے معاملے میں دیا ہے:
"اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل،
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے”.
رمضان کی اکیسویں شب سے شروع ہونے والا مہینے کا تیسرا اور آخری عشرہ گونا گوں خصوصیات کا حامل ہے۔ اس لیے اس عشرہ میں اپنی اخلاقیات کو پاکیزہ بنا کر الله تعالٰی کی قربت اور اس کی رضا حاصل کرنے کی جدوجہد کی جانی چاہیے۔ عبادات اور اخلاقیات اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہیں۔ علم کا مطلب اگر ’جاننا‘ ہے، تو اس کے استعمال کو ’ادب و اخلاق‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
الله تعالٰی نے قرآن مجید میں اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کے متعلق فرمایا ہے کہ
"اور یقیناّ، تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو” ( القلم-68: 4)
اسی ربانی تعلیم کے پیش نظر، رسول الله صلى الله عليه وسلم کے اسوہ حسنہ کی اتباع میں، جو مسلمان اپنی زندگی کو حسن اخلاق سے آراستہ کرلیتے ہیں، وہ نہ صرف خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو جاتے ہیں، بلکہ الله تعالٰی انہیں انسانوں کے درمیان بھی بڑی عزت و احترام کا مقام عطا کر دیتا ہے۔
‘حقوق الله’ میں بنیادی طور پر الله تعالٰی کی معرفت، اس کی یکتائی اور عظمت و بڑائی کا ادراک، اس کے تنہا خالق و مالکِ کائنات ہونے کا شعور، اس کا ذکر و عبادات اور اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ کرنا شامل ہیں۔ جہاں تک ‘حقوق العباد’ کا تعلق ہے، الله تعالٰی نے بندوں پر بندوں کے درجہِ بدرجہ حقوق بھی واضح کر دئے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :
” اور الله ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین ، قرابت مند ، یتیم ، مسکین ، قرابتدار پڑوسی ، بیگانہ پڑوسی ، ہم نشیں، مسافر اور اپنے مملوک کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ بیشک الله اترانے اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا ” (النساء-4: 36)
دراصل، غیروں کے ساتھ حق و انصاف کا معاملہ کرنا اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا گویا کسی فرد کے ‘با اخلاق’ ہونے کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اپنے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے اشخاص کے تئیں بھی حسن سلوک کی ربانی تاکید سے قرآن مجید بھرا پڑا ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں روزہ داروں کو تدبر اور تفکر کا سامان فراہم کرنے کی غرض سے، قرآنی آیات کے چند حوالے یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
• حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ ( البقرہ-2: 42)
• عہد کی خلاف ورزی نہ کرو ( البقرہ-2: 177)
• رشوت ستانی میں ملوث نہ ہو (البقرہ-2: 188)
• فساد نہ پھیلاو (البقرہ-2: 205)
• سود خوری نہ کرو (البقرہ-2: 275)
• کسی کے بھروسہ کو ٹھیس نہ پہنچاؤ (البقرہ-2: 283)
• کسی پراس کی استعداد
سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو(البقرہ-2: 286)
• غصہ پر قابو رکھو (آل عمران-3: 134)
• نرمی کا برتائو کرو (آل عمران-3: 159)
• کنجوسی نہ کرو (النساء-4: 37)
• حسد نہ کرو (النساء-4: 54)
• افواہیں نہ پھیلاو (النساء-4: 83)
• انصاف کی گواہی دو (المائدہ-5: 8)
• تکبر نہ کرو (الاعراف-7: 13)
• لغویات سے دور رہو (المومنون-23: 3)
• زمین پر اکڑ کر نہ چلو (لقمان-31: 18)
• بدی کو نیکی سے دفع کرو (حٰم السجدہ-41: 34)
• معاملات کو مشاورت سے طےکرو (الشوریٰ-42: 38)
• دوسروں کی تضحیک نہ کرو ( الحجرات-49: 11)
رمضان المبارک میں عام طور پر مسلمان اپنے تقویٰ کی کیفیات کو بہتر کرنے کی تربیت حاصل کر تے ہیں۔ نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی تقویٰ کا ہی حصہ ہے۔ اس لیے، تیسرا عشرہ آتے آتے ہم سب کو ضرور اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اخلاق و کردار پہلے سے بہتر ہوئے ہیں کہ نہیں۔ اگر محسوس ہو کہ جواب ‘نہیں’ ہے ، تو آخری عشرہ میں مزید سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کمی اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اخلاقیات یا کوئی بھی اچھی عادت کی نشونما بچپن کے فطری ماحول میں ہی ممکن ہے یا پھر بڑے ہو جانے کے بعد، اس کا انحصار نیک نیت اور مضبوط ارادے پر ہوتا ہے۔ یقیناً، سنجیدگی کے ساتھ نیت کی پاکیزگی اور ارادے کی پختگی، عادات کو درست کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
ایک حکمت کی بات یہ ہے کہ ‘اچھی صحبت بھی آپ کو اچھا نہیں بنا سکتی، اگر آپ خود اچھا بننے کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں’۔ اس ضمن میں، فکری استفادہ کے لیے میرا ایک ذاتی مشاہدہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے:
سن 1985ء سے 1992ء تک میری پوسٹنگ شہر اور ضلع سیتاپور کے مختلف مقامات پر رہی۔ تقریباً 90 کلومیٹر فاصلے پر واقع لکھنؤ شہر (ریاست اترپردیش کی راجدھانی) میں آناجانا لگا رہتا تھا، کبھی دفتر کے کام سے، تو کبھی ذاتی حیثیت میں۔ ایک مرتبہ لکھنؤ میں ہی مغرب کا وقت ہوگیا۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ میں روزہ افطار اور مغرب کی نماز کے ارادے سے ایک مسجد میں داخل ہو گیا۔
اسی مقام پر وہ واقعہ پیش آیا جس کے یاد آنے پر احساس ہوتا ہے کہ کاش، وہ واقعہ وقوع پذیر ہی نہ ہوا ہوتا۔ مسجد کے صحن کی ایک جانب ایک بڑے ڈرم میں افطار کے اہتمام کے طور پر شربت تیار کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ رمضان کے پورے مہینے اسی طرح شربت کا تیار کیا جانا اس مسجد کا معمول ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، ایک دوسرا معمول بھی نظر آرہا تھا۔ وہ یہ کہ مغرب کی اذان سے کچھ وقت پہلے، مسجد کے پڑوسی گھروں سے بہت سارے بچے اپنا اپنا جگ لے کر شربت کے ڈرم کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ بھاری بھرکم داڑھی والے ایک شخص نے شربت بانٹنا شروع کیا۔ کچھ دیر تک سب ٹھیک ٹھاک رہا، مگر جیسے ہی ‘پہلے مجھے، پہلے مجھے’ کی صدائوں کے ساتھ بچوں کا بچپنا طلوع ہوا، حالات یکسر بدل گئے۔ جس طرح بولنے پر کوا اور کوئل کا فرق واضح ہو جاتا ہے، بلکل اسی طرح مزکورہ باشرع ساقی کی اصلیت بھی کھل کر سب کے سامنے آگئ۔ بچوں کی شرارت سے تنگ آکر ‘حضرت جی’ ماں بہن کی گالیاں بکنے لگے۔ یہ ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین واقعہ تھا کہ وقتِ افطار اور عین مسجد کے آنگن میں ایک روزہ دار کے مونھ سے فحش گالیاں!
نماز کے بعد ان سے ملاقات تو نہیں ہو پائی، مگر مجھے ایک بزرگ عالم کی وہ بات یاد آگئی جو انہوں نے مجھے ایک مرتبہ ایک مثال کے تناظر میں سمجھائی تھی:
” کسی بھی شخص کے لیے، بری عادتوں کا چھوڑنا یا اس کے اندر صالح رجحانات کا پیدا ہونا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وہ خود ان کو ترک کرنے یا قبول کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہو، اور حتی الامکان مستحکم ارادہ کے ساتھ کوشش نہ کرتا ہو۔ صرف کسی بزرگ یا عالم کی صحبت یا پاکیزہ ماحول فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا۔ علم و حکمت اور نصیحت و عبرت حاصل کرنے کے لیے، انسان کا خود سنجیدہ ہونا بنیادی ضرورت ہے”.
یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ سبھی مہینوں میں ممتاز ہے اور خصوصی مقام و مرتبہ کا حامل بھی، لیکن آخری عشرہ، یعنی آخری دس دن کے فضائل بہت زیادہ ہیں۔ رسول الله ﷺ کی نسبت سے بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت، شب بیداری اور ذکر و فکر میں بہت زیادہ منہمک ہوجایا کرتے تھے۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے پہلے اور دوسرے عشرہ میں بھی اعتکاف کیا ہے، مگر بعد میں تیسرے یعنی آخری عشرے میں ہی پابندی کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے۔
الله تعالٰی کی قربت حاصل کرنے کی نیت سے، دس دن کے لیے گھربار چھوڑ کر مسجد میں گوشہ نشینی اختیار کرنے اور یکسوئی کے ساتھ الله تعالٰی کی عبادت کرنے کے عمل کا نام ‘اعتکاف’ ہے۔ الله تعالٰی نے بھی قرآن مجید میں اعتکاف کی تحسین فرمائی ہے۔ ( البقرہ-2: 125 اور 187)
چوں کہ اعتکاف اپنے پروردگار کی قربت اور اس کی رضا حاصل کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے، اس لیے اعتکاف کا ارادہ کرنے والے مسلمان، گھر چھوڑ نے کے ساتھ ساتھ، رات کے اوقات میں کھانے پینے کے علاوہ، زندگی کے دوسرے تمام مشاغل ترک کردیتے ہیں اور ایک عشرہ کے لیے الله کے گھر (مسجد) میں مقیم ہوجاتے ہیں۔ یہ بات کہ اعتکاف ایک مومن کے لیے اپنے خالق و مالک سے مزید قریب ہونے میں مددگار ہوتا ہے، اس حقیقت سے سمجھی جاسکتی ہے کہ عام طور پر ایک روزہ دار کو افطار کے بعد سے سحری تک ہر حلال چیز کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے، مگر اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لیے مجامعت ممنوع ہوجاتی ہے۔
اعتکاف کی نیت اور اس کے مقصد کی مطابقت میں اس پر عمل کی سنجیدہ کوشش کی جانی چاہیے۔ ایک عشرہ کا وقت جو صرف الله تعالٰی کی عبادت اور ریاضت، ذکر اور فکر، اور قرآن کے ذیل میں تدبر اور تفکر کے لیے وقف کیا گیا ہے، اس کو اسی مقصد کی تکمیل میں صرف ہونا چاہیے۔
حالات حاضرہ کے تناظر میں، یہ اشارہ مناسب رہے گا کہ اس دوران، موبائل کے استعمال کو ڈسٹریکشن کا بنیادی ذریعہ ہونے کی وجہ سے اپنے لیے ممنوع تصور کر لینا اعتکاف کی روح کے عین مطابق ہوگا۔ بے شک، موبائل کو سائلنٹ موڈ (silent mode ) میں ایمرجنسی (emergency) استعمال کے لیے اپنے پاس رکھا جاسکتا ہے۔ چوں کہ الله کے گھر میں دنیاوی غیر ضروری باتیں ممنوع ہیں، اس لیے اعتکاف کے وقفہ کو عبادت کے ساتھ ساتھ علم کے حصول میں لگایا جا نا چاہیے۔ قرآن مجید کا تدبر اور تفکر کے ساتھ مطالعہ کرنا اعتکاف کے وقت کا بہترین استعمال ہوگا۔ دنیا اور آخرت کی معنویت کے ادراک کے لیے، الله تعالٰی کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے آگاہی سبھی انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ الله تعالٰی کی یہ اسکیم قرآن کے سنجیدہ مطالعہ کے ذریعے باآسانی سمجھی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی، الله تعالٰی کو علم سیکھنے اور سکھانے والے بہت پسند ہیں، کیوں کہ الله کے عنایت کردہ علم کو حاصل کئے بغیر کسی کو الله کی طرف بلانا ممکن نہیں۔
قرآن پاک میں الله تعالٰی کا ارشاد ہے کہ
” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے الله کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں ” ( حٰم السجدہ-41: 33)
اعتکاف کے درمیان دل کی گہرائیوں سے اپنے لیے اور دنیا بھر کے انسانوں کی خیر کے لیے دعائیں مانگنی چاہیئیں۔ واضح رہے کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی (انسان) کے لیے الله سے خیر مانگتا ہے، تب الله تعالٰی خود مانگنے والے کو ڈبل (دوہرا اجر) دیتا ہے۔ اعتکاف میں قیام الیل کے ذریعے نہ صرف رسول الله صلى الله عليه وسلم کے اسوہ حسنہ کی اتباع ہوگی، بلکہ لیلتہ القدر بھی نصیب ہوسکتی ہے۔ جو حضرات مسجد والے اعتکاف میں شامل نہیں ہیں وہ ‘فکری اعتکاف’ کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
خلوصِ دل اور سنجیدگی کے ساتھ کم بولنے کی کوشش اور الله تعالٰی کی نشانیوں میں غور و فکر کی کیفیت سے شب و روز وابستہ رہنا گویا اعتکاف میں بیٹھنے کے ہی مترادف ہوگا۔
‘لیلتہ القدر’ (شب قدر، یعنی خدائی فیصلوں کی رات) ایک بہت ہی بابرکت رات ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق ( odd number dates like 21, 23, 25, 27 and 29) راتوں میں سے کسی ایک رات میں وارد ہوتی ہے۔ قرآن حکیم کے نزول کا سلسلہ بھی اسی رات میں شروع ہوا تھا۔ لیلتہ القدر کی کیفیت قرآن مجید کی سورۃ القدر (سورہ نمبر 97) میں اس طرح بیان کی گئی ہے:
” ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا، اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے، اس میں روح (الامین) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام) کے لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں، یہ (رات) طلوعِ فجر (صبح صادق) تک (امان اور) سلامتی ہے”.
رمضان المبارک کے پورے مہینے اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہوئے، جب روزہ دار 29 واں روزہ افطار کرنے کے بعد ماہِ شوال کا چاند دیکھنے کے لیے اپنی چھتوں کا رخ کرتے ہیں، تب یہ لمحات نہایت ہی پر کیف اور بے مثال ہوتے ہیں۔ 29 روزوں کے بعد ہی عید کا چاند نظر آجانا، مسلمانوں کے اندر گویا نا قابل بیان خوشی کی لہریں (ripples) پیدا کردیتا ہے۔ مسلمانوں کےلیے خوشیوں سے لبریز ‘چاند رات’ کا خدائی نام ہے _ ‘لیلتہ الجائزہ’۔
لیلتہ الجائزہ (انعام کی رات) الله تعالٰی کے اپنے روزہ دار بندوں کو انعام و اکرام سے سرفراز کرنے کی رات ہے۔ روزوں کا حکم صادر کرنے کے ساتھ ہی الله رب العالمین نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ
"روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دینے والا ہوں”.
یہ جملہ کہ ” اور میں ہی اس کا اجر دینے والا ہوں ” واضح کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ الله تعالٰی اپنی بلند شان کے مطابق ہی اجر و انعامات سے مالامال کرنے والا ہے۔ اسی خوش خبری کے پس منظر میں الله تعالٰی کا شکر ادا کرنے کے لیے، چاند رات کو تسبیحات، زائد عبادت اور دعاؤں میں گزارنا چاہیے۔ یقیناً، یہ گہرے شکر کی بات ہے کہ الله تعالٰی نے پورے مہینے استقامت کے ساتھ روزے رکھنےاور خیر کے دوسرے کام کرنے کی توفیق عنایت کی۔ الله تعالٰی کا اپنے مومن بندوں کے حق میں شفقت کا معاملہ بہت انوکھا اور دلچسپ ہے۔ وہ خود ہی اپنے بندوں کو خیر کے کام کرنے کی توفیق عنایت کرتا ہے، اور پھر ان خیر کے افعال کے سبب وہ ان کو انعام و اکرام کا مستحق بھی بنادیتا ہے۔ اس لیے، الله تعالٰی کا شکر ادا کرتے ہوئے، عید کی رات (چاند رات) کو ‘شبِ شکر’ کے طور پر منایا جانا چاہیے۔
چاند رات جب دن میں مبدل ہوتی ہے، تب یہی خوشی (عید) کا دن عید الفطر کہلاتا ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کے درمیان ہر دن شام کو روزہ افطار کیا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر کچھ اسی طرح ماہِ رمضان کا افطار ماہِ شوال کا چاند دیکھنے کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے رمضان کے بعد آنے والی اس عید کو ‘عید الفطر’ کہتے ہیں۔
انفرادی خوشی کے ساتھ ہی، عید الفطر کی خوشی اجتماعی طور پر بھی منائی جاتی ہے۔ بڑی تعداد میں مسلمان شہر کی عید گاہ میں شکرانہ کی دو رکعت واجب نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، وہیں مختلف محلوں کی مساجد میں بھی عید کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ اسلام کے دو بنیادی تیوہاروں میں سے عیدالفطر اسلامی کیلینڈر کا پہلا تیوہار ہے۔ اس عید کی خوشی مثالی ہوتی ہے۔ اپنی خوشی میں کمزور طبقہ کا درد محسوس کرنا اسلامی شعار کا بنیادی حصہ ہے۔ اس لیے، نماز سے قبل غریبوں کے لیے ‘صدقہ فطر’ بھی ادا کیا جاتا ہے۔
اپنے عزیز و اقارب، دوست/احباب اور دوسرے مذاہب کے ہم وطن افراد کے ساتھ بھی گلے مل کر مسلمان خوب سے خوب تر خوشیاں مناتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں اخوت (بھائی چارہ) کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے، جس کو موجودہ معاشرتی حالات کے پیش نظر مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر معروف ‘سیوئیاں’ عیدالفطر کی خاص ڈش (dish) ہے۔
عیدالفطر نہ صرف بر صغیر ہند، بلکہ دنیا کا مشہور و معروف تیوہار ہونے کی وجہ سے، خاص طور پر اردو ادب میں اس کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
ہندوستان کے مشہور و معروف کہانی کار، افسانہ اور ناول نگار، منشی پریم چند نے اسی تیوہار کے متعلق ایک کہانی لکھی ہے جس کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی۔ اس کہانی کا نام ہے _ ‘عید گاہ’۔
غریب بوڑھی بیوہ امینہ کا ایک کم سن پوتا ہے _ حامد۔
حامد کے ماں باپ پہلے ہی خدا کو پیارے ہو چکے ہیں۔ کسی طرح چند پیسے جٹا کر وہ حامد کو اس کے دوستوں کے ساتھ عید گاہ بھیج دیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ حامد بھی اپنے دوستوں کی طرح کچھ مٹھائی اور کھلونے جیسی دوسری چیزیں خریدتا، لوہے کی چیزوں کی دوکان دیکھ کر اسے اپنی دادی یاد آجاتی ہے۔ دست پناہ (چمٹا) نہ ہونے کی وجہ سے روٹی بناتے وقت اکثر اس کے ہاتھ جل جاتے ہیں۔ حامد اپنے مزے اور تفریح بھول کر، اپنے سارے پیسوں سے دادی کے لیے لوہے کا چمٹا (دسبنا) خرید لیتا ہے۔ حامد کی بھوک پیاس کی ضرورت اور کھلونوں کی خواہش پر گویا اس کی محبت اور جذبہ ایثار فتح حاصل کر لیتے ہیں۔
جس شخص کا بچپن میں ہی ‘نفس کشی’ کی کیفیت سے تعارف ہو جائے، تصور کیا جاسکتا ہے اس کی جوانی کس قدر مبارک اور قابل رشک ہو گی، مرحبا!