پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک لاکر عمران خان کی حکومت بے دخل ہوئی ہے،گو وہاں کی اب تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کسی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے نہیں کیے، البتہ اس بار ڈرامہ کچھ زیادہ ہی ہوا، عمران خان نے عدم اعتماد تحریک کا سامنا کرنے سے انکار کردیا، پارلیامنٹ کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور ملک کے صدر عارف علوی نے ان کا ساتھ دیا، پارلیمنٹ تحلیل ہوگئی۔
عمران خان نے نئے انتخاب کا اعلان کیا، حزب مخالف سپریم کورٹ پہونچے،سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس عمرعطا بندیالی کررہے تھے قومی اسمبلی بحال کردی، اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرنے کو کہا، پارلیامنٹ میں بحث چلی، عمران خان کی انصاف پارٹی کے ممبران نے بائیکاٹ کیا، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکے استعفیٰ کے بعد نئے اسپیکر نے رات بارہ بجے ووٹنگ کرائی اور ایک سو چوہتر(۴۷۱) ممبران کی معمولی اکثریت سے عمران خان کی حکومت گرگئی۔
معمولی اس لیے کہ اکثریت کے لیے ایک سو بہتر(۲۷۱) ووٹ چاہیے تھے صرف دو دو ووٹ زائد آئے، نواز شریف کے بھائی شہباز شریف حزب مخالف کی طرف سے وزیر اعظم کے امید وار بنے اور انہیں جمعیت علماء پاکستان، پوپلس پارٹی مریم شریف وغیرہ کی حمایت حاصل تھی، ایسے میں وہ پاکستان کے تئیسویں وزیر اعظم بلامقابلہ منتخب ہوئے، صدرمملکت حلف برداری کے لیے نہیں پہونچے، رسمی طور پر بیمار ہوگئے تو معمول سے ہٹ کرسینٹ کے چیئرمین نے حلف دلایا اور وہ اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں، عمران خان کی انصاف پارٹی کے سارے ارکان پارلیمان نے استعفیٰ دے دیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ بخیر نہیں ہے۔
عمران خان کے اس عمل سے پاکستان کی جمہوریت کمزور ہوئی ہے اور سامراجی طاقتوں کا دبدبہ پاکستان پر بڑھا ہے، عمران خان یہی تو کہہ رہے تھے کہ ہماری حکومت گرانے میں غیر ملکی طاقتوں کاہاتھ ہے،ان کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے، علاقہ میں پاکستان امریکہ کا حلیف رہا ہے، اسے چین کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے، ادھر چین سے دوستی بڑھانا پاکستان کی مجبوری بن گئی اور عمران خان نے امریکہ کی داداگیری کے اثرات کو پاکستان میں کم کرنے کا بیڑا اٹھایا، انہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف بھی آواز اٹھائی، پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر ہوئی اور اس کی وجہ سے ا س کے وقار میں اضافہ ہوا۔
دوسری طرف اندرونی پالیسی میں عمران خان کچھ زیادہ نہیں کرسکے،جوامیدیں عوام نے وابستہ کی تھیں،وہ اس پر پورے اتر سکے،ملک معاشی طور پر کمزور ہوتا چلاگیا؛اس لیے حزب مخالف کوموقع ملا اوروہ عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہوگئے۔
ایسے میں عمران خان کوعدم اعتماد کی تحریک کاسامنا کرنا چاہئے تھا یااستعفی دے دینا چاہیے تھا، عمران خان نے ایساکچھ نہیں کیا، ایک نیا داؤ کھیلا جس سے ملک کی پارلیامنٹ کو کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا، اس طرح عمران خان خود ہی ذلیل ہوکر ایوان اقتدار سے باہر ہوئے، اگر وہ اکثریت کھودینے کی وجہ سے اقلیت میں آگئے تھے تو انہیں استعفی دے دینا چاہیے تھا، جیساکہ صرف ایک ووٹ کم ہونے پر اٹل بہاری باجپئی نے استعفی دیدیا تھا، اگر وہ ایساکرلیتے تو ملک میں جمہوریت کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی اور مضبوطی آتی۔
اس پورے قضیہ میں پاکستانی فوج کا رویہ تاریخ کے برعکس رہا ہے، ایسے موقع سے پاکستان میں فوج حکومت پر قابض ہوتی رہی ہے، پاکستان میں مارشل لاکی تاریخ طویل بھی ہے اور قدیم بھی، لیکن اس بار فوج نے اب تک اس سیاسی قضیہ سے خود کو الگ رکھا اور کوئی دخل اندازی نہیں کی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوج میں اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہو، خود فوجی سربراہ باجواعمران خان کے قریب رہے ہیں اور انہوں نے ملاقات کرکے باربار اس قضیے کو حل کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس واقعہ کے بعد ایسا بھی نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت میں دوبارہ واپسی نہیں ہوپائے، پاکستان میں نواز شریف اوربے نظیر بھٹو کی واپسی حکومت میں ہوچکی ہے، اگلے انتخاب میں عمران خان کے لیے موقع ہوسکتا ہے۔
پاکستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، وہاں کی سیاست کے نشیب وفراز پر ہماری نگاہ ضروری ہے، ہمارے وزیر اعظم نے شہباز شریف کو مبارکباددے دی ہے اوراچھے تعلقات کی امید ظاہر کی ہے، لیکن یہ بس رسمی جملہ ہے،شہباز شریف نے آتے ہی کشمیر مسئلہ کی بات کہی ہے اور کشمیر مسئلہ کے ساتھ دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کس طرح رہ سکتے ہیں؟
ماضی میں دوجنگیں ہندوپاک اس مسئلہ پر لڑ چکا ہے،اس لیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں،ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیاسی قائد سے زیادہ اچھے منتظم ہیں، اچھے منتظم کا تقاضہ ہے کہ وہ ہندوستان سے تعلقات استوار رکھیں، امریکہ اور چین سے دوستی میں اعتدال کو راہ دیں اور افغانستان میں طالبان کو اپنے من کی حکومت کرنے دیں،کیوں کہ افغانستان میں پاکستان کی دخل اندازی سے خطہ میں ماحول سازگارنہیں رہ پائے گا اور ایسے میں ہندوستان کی تشویش بجا ہوگی۔