‘جہانگیر پوری میں ہونے والی جارحیت اچانک رونما،’ نہیں ہوئی ہے بلکہ مسلمانوں کو الگ کرنے اور ان کی رہائش گاہوں اور جائیدادوں کو چھین کر مہاجرین کے طور پر سڑکوں پر بھیجنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے’۔
نئی دہلی۔ (پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی جنرل سکریٹری الیاس محمد تمبے نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں دہلی کے جہانگیر پوری میں سنگھ پریوار کی بلڈوزر سیاست پر انتہائی تشویش اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔
الیاس محمد تمبے نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) جہانگیر پوری کا دورہ کرے جہاں حکام نے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کی رہائش گاہوں، تعمیرات اور مساجد کی املاک کو غیر قانونی طور پر مسمار کردیا تھا اور اس کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے اور قصور واروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔
شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن
(این ڈی ایم سی) نے دہلی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ آدیش گپتا کے ایک خط کے جواب میں کارروائی کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ سماج دشمن عناصر اور فسادیوں کے تجاوزات کو بلڈوز کریں، مکینوں کو بیریکیڈ والی گلیوں میں بند کردیں اور تجاوزات ہٹانے کا کام شروع کریں اور مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور کاروبار کو مسمار کریں۔
حکمران ہندوتوا فاشسٹ حکومت مسلم مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کیلئے اپنے ہر سظح کے لیڈران کو سڑکوں پر اتارر ہی ہے۔ پولیس فورس جس کو امن و امان برقرار رکھنا ہے اور توڑ پھوڑ اور مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنا ہے وہ نہ صر ف ہندوتوا کے غنڈوں کے مظالم کے سامنے خاموش تماشائی بن کر کھڑی ہے بلکہ وہ غنڈوں کی غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی سرگرم عمل ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے فوری سماعت میں حکم دیا کہ انہدام کو روک دیا جائے اور اسٹیٹس کو برقرار رکھا جائے، لیکن این ڈی ایم سی میئر اور دہلی پولیس کی موجودگی میں انہدام ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔
سپریم کورٹ کے حکم کی ڈھٹائی کے ساتھ خلاف ورزی کرنے کیلئے این ڈی ایم سی کے میئر اور دہلی پولیس کا جوش و خروش ظاہر کرتا ہے کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے میں کتنا محفوظ محسوس کرتے ہیں، اور انہیں کتنا یقین ہے کہ اگر ان کی جارحیت کا نشانہ مسلمان ہوں گے تو حکمران ان کی حفاظت کریں گے۔
این ڈی ایم سی کے ذریعے کی گئی انہدام نے نہ صرف عدالت عظمی کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اس نے قائم شدہ قانون اور اصولوں اور متاثرہ افراد کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ کوئی قابل اطلاق ریاستی قوانین جیسے دہلی میونسپل کارپوریشن ایکٹ 1957 یا دہلی ڈیولپمنٹ ایکٹ1957حکومت کو متاثرہ فریقوں کو پیشگی اطلاع دیئے بغیر عمارتوں اور ڈھانچوں کو گرانے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
جہانگیر پوری میں انہدام کے دوران اس اصول پر عمل نہیں کیا گیا، وہ صرف ایک سیاسی پارٹی کے رہنما کے حکم کی تعمیل کررہے تھے۔ جہانگیر پوری میں ہونے والی جارحیت اچانک رونما نہیں ہوئی ہے بلکہ مسلمانوں کو الگ کرنے اور ان کی رہائش گاہوں اور جائیدادوں کو چھین کر مہاجرین کے طور پر سڑکوں پر بھیجنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
رام نومی کے جلوس کے بعد کے حالیہ ہفتوں میں نہ صرف جنونی متعصب ہندوتوا ہجوم کے تشدد بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں حکام کے ذریعہ مسلمانوں کی املاک کو غیر قانونی طور پر بلڈوز کرنے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔
ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس ظلم کے متاثرین کو مالی معاوضہ ادا کرے اور متاثرین کی فوری بحالی کا بندوبست کرے۔
الیاس محمد تمبے نے مطالبہ کیا کہ وہ تمام مجرم جنہوں نے رام نومی کی آڑ میں فرقہ وارانہ دشمنی اور تشدد کو ہوا دی اوروہ افسران جنہوں نے سپریم کورٹ کی خلاف ورزی کی اور سیاسی پارٹی کے رہنما کے حکم کی تعمیل کی، انہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے۔