انسان فطری طور پر اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے، وسائل کی قلت اور زندگی گذارنے میں معیار کے مسئلے کے باوجود وہ چاہتا ہے کہ اس کی کئی اولاد ہو، تاکہ وہ بڑھاپے میں والدین کے لیے سہارے کا کام کر سکیں، چین نے اس فطری تقاضے سے بغاوت کر رکھی تھی، وہاں ایک بچہ کی ولادت کے بعد دوسرے بچے کو آنے سے قانونی طور پر روکاجا رہا تھا۔
2007ء تک یہ قانون صرف 43 فی صد آبادی پر ہی لاگو ہو سکا تھا،کیونکہ قانونی اعتبار سے ان لوگوں کو دوسرے بچے کی پیدا ئش کی اجازت دی گئی تھی، جن کی پہلی اولاد لڑکی ہو، لیکن اس قانون کی وجہ سے چین میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی تھی، ابھی چین میں اکیس کڑوڑ لوگ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں، معاشی تگ ودو کرنے والے افراد کی دن بدن کمی ہوتی جا رہی تھی، جبکہ کمیونسٹ نظریہ میں دولت کے حصول کے لیے افرادی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔
اسلام نے اس غیر فطری مطالبہ کو ہمیشہ ناقابل عمل قرار دیا ہے، اس کی سوچ یہ ہے کہ کھاناکھلانا اور بچوں کی دوسری ضروریات پوری کرنا انسان کا کام نہیں، وہ اللہ کا کام ہے اور اللہ حسب ِضرورت ضروریات زندگی پوری کرتا ہے، اس کا اعلان ہے کہ کھلانے پلانے کے ڈر سے بچوں کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور اسے بھی کھلائیں گے، وسائل کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں، اس لئے معاشی تنگی کے ڈر سے آنے والے بچوں کو روکنا اور خاندانی منصوبہ بندی کرانا،اللہ پر ہمارے یقین و اعتماد میں کمی کامظہر ہے۔
دراصل یہ سارا قصورانسانی عقل کا ہے، وہ اپنی محدود دنیا کے لیے محدود عقل سے سوچتا ہے اور بیش تر ان خطروں کا ادراک کرلیتا ہے، جس کا وجود موہوم ہوتا ہے، مالتھس کی تھیوری اگر صحیح ہوتی توآج دنیا میں رہنے کی جگہ نہیں ہوتی۔
لیکن اسلام کے اصول وضوابط انسانی عقل کی پیداوار نہیں ہیں، اس لیے اسلام نے بچوں کی آمد پر روک نہیں لگائی اور یہ تصور دیا کہ ہر آنے والابچہ اپنے ساتھ ایک سوچنے والا دماغ اور کام کرنے والے دو ہاتھ لے کراس دنیا میں آتا ہے، یہ قدرت کاعطیہ ہے، یہ انسانی چمن کے پھول ہیں،انہیں بھی دنیا دیکھنے دیجئے۔
اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ بچے آتے رہیں، ہرآنے والا بچہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ قدرت ابھی اس کائنات سے مایوس نہیں ہے، وہ اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ نکاح کے لیے ایسے خاندان کی لڑکیوں کا انتخاب کیا جائے جس میں زیادہ بچوں کی پیدائش کی روایت رہی ہو، اس صورت حال کے مطالعہ کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت کا جو نظام ہے، وہ بڑھتی آبادی کے اعتبار سے معاشی وسائل پیدا کرنے کا ہے۔
آپ ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ جہاں آبادی نہیں ہوتی وہاں کی زمینیں بنجر ہوتی ہیں، ریگستان، ریت اور ببول کے پیڑہی اس کا مقدر ہوتے ہیں،لیکن جہاں کوئی بستی آباد ہوئی، وہی جگہ جہاں دھول اڑرہی تھی، لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے، جو جگہ صحرا اور بیابان تھی، وہاں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور زمین کی قوت نمو میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس کا جائزہ وسیع پیمانے پرلیں تومعلوم ہوگا کہ جب آبادی کم تھی تو انسان غذائی اجناس کی پیداوارکے وہ طریقے نہیں جانتا تھا، جو آج اس کے علم ویقین کا حصہ ہیں، وہ پھوس کے مکان میں رہتا تھا، اس زمانہ میں کثیر منزلہ عمارتوں کا کوئی تصور نہیں تھا، کل کارخانے اور معدنیات کے وہ ذخائر جوزمین نے اپنا سینہ چیر کر انسانوں کی معاش کے لیے فراہم کئے ہیں، اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا تھا۔
لیکن آبادیاں بڑھیں تومعاشی وسائل بھی بڑھے،جس کھیت سے دہقان کوروٹی میسر نہیں ہوتی تھی اور ساہوکاروں کے یہاں کسان بیگاری کرتے کرتے مرجاتا تھا،کھیتیاں مانسون کی رہین منت ہوتی تھیں،آب پاشی کی سہولت نہیں ہونے سے کسان سال سال بھر فاقہ کشی کی دہلیز پرپڑا رہتا تھا۔
آج یہ سب خواب معلوم ہورہا ہے، اب فصلیں سال میں کئی کئی باراگائی جارہی ہیں، اور زمین کی قوت نمو کو اللہ نے اس قدر بڑھادیا ہے کہ ہماری سرکاریں اعلان کرتی رہتی ہیں کہ غذا کی کمی سے کسی کو مرنے نہیں دیا جائے گا، یہ فکری بصیرت کا معاملہ نہیں،کھلی آنکھوں کے مشاہدہ سے اس کا تعلق ہے۔