بابرکت اور سعادت والا مہینہ رمضان کا مہینہ آیا بھی اور اس کا پہلا عشرہ بہت تیزی کے ساتھ گزر گیا، دوسرا بھی گزرنے کے قریب ہے اور اسی طرح تیسرا عشرہ بھی گزر جائے گا، اور ہمارا حال کیا ہے کہ ہم معمول سے زیادہ کھانے اور معمول سے زیادہ سونے میں مشغول ہیں، اللہ رب العزت ہمیں معاف فرمائے اور رمضان کے بقیہ ایام کی صحیح طرح قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رمضان کی صحیح طرح سے قدر کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے آخری عشرہ میں اور ایک عبادت عطا فرمائی ہے جسے اعتکاف کہا جاتا ہے۔
اعتکاف کی حقیقت
اعتکاف اصل میں ہے کیا؟ ایک مسلمان جب دنیا کے کام دھندوں میں لگتا ہے تو اس کے دل پر غفلت کا پردہ پڑجاتا ہے، اگرچہ وہ نماز پڑھ رہاہوتا ہے، روزے رکھ رہا ہوتا ہے، لیکن جس طرح اللہ رب العزت کی معرفت اسے حاصل ہونی چاہیے وہ نہیں ہوتی تو دنیا کے کام دھندوں کو چھوڑ کر مسجد کے ایک کونے کو پکڑ لیتا ہے اور گویا زبان حال سے وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے پروردگار جب تک تو مجھے معاف نہیں کرے گا میں اس در کو نہیں چھوڑوں گا جب تک اپنی رحمت مجھ پر نازل نہیں کرے گا میں یہاں سے نہیں جاؤں گا، یہ اعتکاف کی حقیقت ہے۔
نزول قرآن کا آغاز اور اعتکاف
نبی کریمﷺ کئی کئی دنوں کا توشہ لے کر غار حراء میں اللہ رب العزت کی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے، تنہائی آپ کو پسند ہوگئی تھی، اس عبادت اور ریاضت سے آپ اس اعلی مقام پر پہنچے کہ اللہ رب العزت نے جبرئیل امین کے ذریعہ آخری امت کے لیے آخری کتاب کا پہلا سبق اسی غار حراء میں بھیجا۔
محققین نے بیان فرمایا کہ پہلی وحی کے نازل ہونے کے وقت نبی کریمﷺ کی جو کیفیت تھی اسی کو رمضان بنادیا گیا، آپ کئی کئی دنوں کا توشہ لے کر جاتے تھے تو کم کھاتے تھے کم پیتے تھے بھوک پیاس کو بھی برداشت کرتے تھے اور رمضان میں ایک مسلمان بندہ بھوک پیاس کو برداشت کرتا ہے، آپ وہاں عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے اور رمضان میں مسلمانوں کی عبادات میں اضافہ ہوجاتا ہے، تو نبی کریمﷺ کے ساتھ مشابہت ہوجاتی ہے رمضان میں، لیکن غار حراء میں آپ تنہا رہتے تھے وہ تنہائی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہوتی، اس لیے اعتکاف کو مشروع کیا گیا، تاکہ نزول قرآن کےوقت کی پوری کیفیات مسلمانوں کو حاصل ہوں۔
اللہ رب العزت چاہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی ایک ایک ادا مسلمانوں میں باقی رہے اس لیے اعتکاف کو مشروع کیا گیا، دوسرے مذاہب میں رہبانیت کو عبادت سمجھاجاتا ہے کہ بندہ سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں جنگل میں چلا جائے، اسلام میں یہ پسندیدہ نہیں اور نہ یہ درست ہے، اور نبی کریمﷺ کی اس تنہائی والی کیفیت کو بھی باقی رکھنا تھا اس لیے اعتکاف مشروع کیا گیا کہ اس میں تنہائی ہو، لیکن ایسی مسجد میں جس میں پانچ وقت جماعت سے نماز ہوتی ہو تاکہ نماز کے اوقات میں لوگوں سے ملنا جلنا ہو اور رہبانیت کی طرح غیروں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔
اعتکاف کی تعریف
اعتکاف عربی زبان کا ایک لفظ ہےجس کے معنی ٹھہرنے اور اپنے آپ کو روک لینے کے ہیں، شریعت کی اصطلاح میں، مسجد کے اندر (اعتکاف کی) نیت کے ساتھ، اپنے آپ کو مخصوص چیزوں سے روک رکھنے کا نام ہے۔ (قاموس الفقہ: ۲ /۱۷۰)
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: (۱) واجب، (۲) سنت مؤکدہ علی الکفایہ (۳) مستحب۔
واجب: واجب اعتکاف کی دوقسمیں ہیں: (۱) کوئی شخص کسی شرط کے ساتھ منت مانے کہ اگر اس کا فلاں کام ہوجائے؛ تو وہ اس کا کی تکمیل پر اعتکاف کرے گا؛ تو اب اس کام کی تکمیل پر، اس کے لیے اعتکاف کرنا واجب ہوگا۔
(۲) کوئی شخص مطلقا یعنی بغیر کسی شرط کے اعتکاف کرنے کی منت مانے، مثلا یوں کہےکہ وہ فلاں دن کا اعتکاف اپنے اوپر لازم کرتا ہے، یا فلاں دن اعتکاف کرنے کی منت مانتا ہے؛ تو اس صورت میں بھی اس پر اعتکاف واجب ہوجائے گا۔ واجب اعتکاف کم از کم ایک دن اور ایک رات کا ہوگا، اس کے لیے روزہ رکھنا بھی شرط ہے، بغیر روزہ کے واجب اعتکاف ادا نہیں ہوگا۔
سنت مؤکدہ علی الکفایہ: رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کو سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی محلہ یا گاؤں کی مسجد میں، رمضان کے آخری عشرہ کا ایک شخص بھی اعتکاف کرلے؛ تو سنت ادا ہوجائے گی اور اس محلہ یا گاؤں کا کوئی بھی شخص گنہگار نہیں ہوگا اور اگر ایک شخص نے بھی اعتکاف نہیں کیا؛ تو پورے محلہ اورگاؤں کے لوگ اس سنت کے چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے۔
سنت مؤکدہ علی الکفایہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے، جو شخص اس اعتکاف کو کرنا چاہتا ہے، وہ بیسویں رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے، اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور عید (شوال) کا چاند نکلنے تک مسجد میں معتکف رہے، اب چاہے عید کا چاند انتیس کا ہو یا تیس کا، اعتکاف مکمل ہوگیا۔
مستحب یا نفل: مستحب یا نفل اعتکاف یہ ہے کہ اس کی نیت کرکے، آدمی چاہے تو ایک ہی منٹ کے لیے مسجد میں چلا جائے، مستحب اعتکاف ہوجائے گا، مستحب اعتکاف کےلیے روزے اور وقت وغیرہ کی شرط نہیں ہے، ایک مسلمان کو چاہیے کہ جب بھی مسجدمیں داخل ہو؛ تو داخل ہوتے وقت، اعتکاف کی نیت کرلے اور جب تک مسجد میں رہے،لغوباتوں سے پرہیز کرے اور تلاوت، اذکار یا پھر نفل نماز وغیرہ میں مشغول رہے؛یہ نفل اعتکاف شمار ہوگا۔
اعتکاف کی حکمت
شریعت میں جس عبادت کے بھی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یا پھر جس عبادت کے کرنے پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے؛ اس میں حکیم و خبیر پروردگار نےبڑی حکمت ودانائی بھی رکھی ہے، اعتکاف بھی ایک قسم کی عبادت ہے، اعتکاف کی حکمت یہ ہے کہ معتكِف (اعتکاف کرنے والا) نماز باجماعت کا انتظار کرے، خود کو فرشتوں کے مشابہ بنانے کی کوشش کرے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرے، اعتکاف میں معتكِف اللہ کے تقرب کی طلب میں، اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ تعالی کی عبادت کے سپرد کردیتا ہےاور نفس کو اس دنیا کے مشاغل سے دور رکھتا ہے، جو اللہ کے اس تقرب سے مانع ہےجسے بندہ طلب کرتا ہے،اور اس میں معتكِف اپنے پورے اوقات میں حقیقتا یا حکما نماز میں مصروف رہتا ہے؛ اس لیے کہ اعتکاف کی مشروعیت کا اصل مقصد نماز باجماعت کا انتظار کرنا ہے اور معتكِف اپنے آپ کوان فرشتوں کے مشابہ بناتا ہے،جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے، انھیں جو حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں اور رات ودن تسبیح پڑھتے ہیں، کوتاہی نہیں کرتے۔” (موسوعہ فقہیہ ۵: ۳۱۰)
اعتکاف کرنے کی جگہ
مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرے، مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہوں پر مردوں کا اعتکاف درست نہیں ہوگا، معتكِف کے لیے مساجد میں افضل مسجد: مسجد حرام، پھر مسجد نبوی، پھر مسجد اقصی (فلسطین)، پھر ان کے شہر کی جامع مسجد،پھر محلہ کی مسجد جہاں پنج وقتہ جماعت کا انتظام ہو یعنی وہ مسجد جس میں امام اور موذن ہو، خاتون اگر شادی شدہ ہو؛ تو اپنے شوہر کی اجازت کے بعد، اپنے گھر میں جس جگہ روزانہ نماز پڑھتی ہے، اسی جگہ پر اعتکاف کرے، اگر روزانہ ایک معین جگہ پر نماز ادا نہ کرتی ہو؛ تو وہ عارضی طور پر،ایک جگہ متعین کرلے اور اسی جگہ پر اعتکاف،نماز، تلاوت اور تسبیح واذکار کرے، گھر کے کام کاج اعتکاف کی حالت میں نہیں کرسکتی البتہ دوسروں کی رہنمائی کرسکتی ہے کام کاج کے سلسلے میں۔
اعتکاف کی بھی قضا ہے
اگر کوئی شخص واجب اعتکاف میں تھا اور اعتکاف کسی وجہ سےٹوٹ گیا؛ تو اسے اس اعتکاف کی قضا کرنا ضروری ہے، قضا میں از سر نو ان تمام ایام کی قضا کرنی ہوگی، جتنے دنوں کی منت اس شخص نے مان رکھی تھی؛ کیوں کہ اس میں تسلسل ضروری ہے، اگر کوئی شخص رمضان کے آخری عشرہ میں، سنت اعتکاف میں تھا اور اعتکاف کسی وجہ سے ٹوٹ گیا؛ توصرف اس ایک دن کی قضا کرے، جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے، مگر احتیاط اس میں ہے کہ مکمل دس دن کی قضا کرلے، سنت اعتکاف ٹوٹ جانے کے بعد، باقی دنوں کا اعتکاف نفل شمار ہوگا، واضح رہے کہ نفل اعتکاف مسجد سے نکلتے ہی ختم ہوجاتا ہے، وہ ٹوٹتا نہیں؛ اس لیے اس کی قضاوغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں۔
اعتکاف کا تذکرہ قرآن مجید میں
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (البقرة: ۱۲۶) ترجمہ: اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک وصاف بنائے رکھو۔ وَ لَا تُبَاشِرُوْہُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ. (البقرہ: ۱۸۷)
اور جب تم مسجد میں معتکف رہو تو بیوی سے صحبت نہ کرنا۔
اعتکاف کا تذکرہ اور فضیلت احادیث مبارکہ میں
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ ﷺ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُشَدَّ مِیْزَرَہٗ وَاَحْیٰی لَیْلَہٗ وَاَیْقَظَ اَھْلَہٗ۔ (بخاری و مسلم) حضرت عائشہ ؓ روایت فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور اقدسﷺ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیا کرتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھروالوں کو (بھی عبادت کے لیے) جگاتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان کے آخری دس دنوں کے اندر جتنی محنت سے عبادت کرتے تھے، اس کے علاوہ دوسرے ایام میں اتنی محنت نہ کرتے تھے۔ (مسلم)
اعتکاف کے فضائل اور اجر وثواب بہت ہی زیادہ ہیں، رمضان کے آخری عشرہ میں سنت اعتکاف ہوتا ہے، آخری عشرہ میں اعتکاف کے فضائل وبرکات اس سے سمجھے جاسکتے ہیں کہ نبی ﷺ مدینہ منورہ آنے کے بعد، ایک سال کے علاوہ، ہر سال بڑی پابندی سے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، ایک سال اعتکاف چھوٹ گیا تو اگلے سال بیس دنوں کا اعتکاف کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: “كَانَ رَسُولُ اللّهِ –صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ– يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ”. (صحیح بخاری شریف، حدیث: ۲۰۲۵) یعنی رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنِ اعْتَكَفَ عَشْرًا فِي رَمَضَانَ كَانَ كَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ”. (شعب الایمان: ۳۶۸۰) جو شخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرتا ہے، تو (اس کا یہ عمل) دو حج اور دو عمرے کی طرح ہے (یعنی اسے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ملے گا)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَن اعْتكَفَ إِيمَانًا واحْتسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقدمَ مِن ذَنبِه”. (فیض القدیر ۶/ ۷۴) ترجمہ: جو شخص ایمان کی حالت میں، ثواب کی امید کرتے ہوئے اعتکاف کرتا ہے، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
اعتکاف کی غرض وغایت
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلة القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلة القدر کو تلاش کرو۔(صحیح بخاری: ۱۸۸۰)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں تفصیل ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اورہم نے بھی کیا، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلادیا گیا یاد رکھو لیلة القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے۔ (صحیح بخاری: ۲۰۲۷)
خلاصہ یہ ہے کہ اعتکاف سے مقصود لیلۃ القدر کو پانا ہے جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے زیادہ ہے، نیز اس حدیث میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کیلیے آخری عشرہ کا اہتمام بتایا گیا ہے جو دیگر احادیث کی رو سے اس عشرہ کی طاق راتیں ہیں، لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ اس آخری عشرہ کی ساری راتوں میں بیداری کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ کم از کم طاق راتوں کو تو ضرور عبادت میں گزارنا چاہیے۔