حالات حاضرہ

جہانگیر پوری انہدامی کارروائی کے اہم نکات

دہلی کے جہانگیر پوری میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی ریلی کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ہنگامہ آرائی کے بعد مقامی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث ملزمان کے مکانات اور دکانیں گرادیں۔ جن میں زیادہ تر مسلمانوں کے گھر اور دکانیں شامل ہیں۔

شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن نے 19 اپریل کو جاری کردہ ایک سرکلر میں 16 اپریل کو ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد دو روزہ "خصوصی مشترکہ تجاوزات ہٹانے کے پروگرام” کا اعلان کیا تھا تاہم اس مہم کو سپریم کورٹ کے مداخلت کے بعد روک دیا گیا۔

انہدام کی مہم شروع ہونے کے فوراً بعد، سپریم کورٹ نے آپریشن کو روکنے کا حکم دیا اور ایک درخواست کی بنیاد پر 21 اپریل کو فوری سماعت کا وقت مقرر کیا

تاہم عدالتی حکم کے باوجود یہ مہم جاری رہی جب تک کہ سی پی ایم لیڈر برندا کرت عدالت عظمیٰ کے حکم کی فزیکل کاپی لے کر نہ پہنچیں۔

متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انہیں مسمار کرنے کی مہم سے پہلے کوئی نوٹس نہیں ملا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر ایک سرکلر سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ مہم کے دوران امن برقرار رکھنے کے لیے علاقے میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔

متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ یکطرفہ کارروائی کی گئی صرف مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو گراگیا۔

مقامی لوگوں کے مطابق سپریم کورٹ کا حکم آنے کے باوجود جہانگیر پوری میں مسجد کے اطراف کے گھروں اور دکانوں گرا دیا گیا جبکہ کچھ لوگوں نے کہا کہ آگے مندر کے پاس کیوں نہیں انہدامی کارروائی کی گئی تو جب کہا گیا کہ اب ہمیں سپریم کورٹ کا حکم ملا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا کہ "فوری طور پر سکریٹری جنرل یا رجسٹرار جنرل کے ذریعے آرڈر کی اطلاع دیں۔

بدھ کی صبح بڑی تعداد میں بلڈوزر جہانگیرپوری پہنچے اور پولیس کی سخت حفاظت کے درمیان مبینہ ملزمین کے متعدد مکانات اور دکانوں کو گرادیا گیا۔

اس مہم کا حکم دہلی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ آدیش گپتا نے دیا تھا جنہوں نے میئر کو خط لکھا اور ان سے کہا کہ وہ "فسادیوں” کے مکانات کی نشاندہی کریں اور انہیں منہدم کریں۔

ہفتہ کو ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران اس علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد شروع ہونے کے بعد سے سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ جلوس بغیر اجازت کے نکالا گیا تھا جس میں جلوس میں شامل افراد نے اسلحہ لے کر اس علاقے کی ایک مسجد کو عبور کیا جہاں سے تشدد شروع ہوا تھا۔

تشدد میں آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوئے جس کے دوران پتھراؤ کیا گیا اور گولیاں چلائی گئیں۔

پولیس نے اس کیس کے سلسلے میں 25 کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے پانچ پر قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت فرد جرم عائد کیا گیا ہے، جس سے لوگوں کو بغیر کسی الزام کے دباؤ ڈالے ایک سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔