سینکڑوں فلسطینی جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کی توڑ پھوڑ کے خلاف اور مقبوضہ مغربی کنارے میں رہنے والے لوگوں کی حمایت کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے نعرے لگاتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے نمازیوں اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف شدید اسرائیلی تشدد کا سامنا کرنے والوں کے لیے عرب اور بین الاقوامی حمایت کا مطالبہ کیا۔
اس ہفتے کے شروع میں غزہ میں فلسطینی دھڑوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے حماس کے سینیئر اہلکار یحییٰ سنوار سے ملاقات کی، جہاں انھوں نے مہلک اسرائیلی حملوں کے خلاف اپنی "متحد پوزیشن” کی تصدیق کی۔
رمضان کے مقدس مہینے میں ہفتہ وار نماز جمعہ کے لیے مقدس مقام پر ہزاروں افراد جمع ہوئے جب جھڑپیں ہوئیں جس میں 150 سے زائد فلسطینی زخمی ہو گئے ۔ غزہ کے مظاہرے میں اسلامی جہاد تحریک کے ایک سینئر رکن خالد البطش نے جمعہ کی صبح مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ”آج ہم غزہ میں یروشلم اور مغربی کنارے کے لوگوں کو اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے جمع ہیں۔ ہم اپنی عوامی مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے شہداء کی روحوں کو سلام پیش کرتے ہیں‘‘۔ البطش نے زور دیا کہ اگر الاقصیٰ کے احاطے میں اسرائیلی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو فلسطینی دھڑے "خاموش نہیں رہیں گے”۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی اشتعال انگیزی کو برداشت نہیں کریں گے اور ہم اس کے تسلسل کو قبول نہیں کریں گے۔
اسرائیل کے عوامی تحفظ کے وزیر عمر برلیف نے کہا کہ اسرائیل کو الاقصیٰ کے احاطے میں تشدد میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی افواج کو ان پر حملہ کرنے والے "تشدد عناصر” کا سامنا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
حالیہ تشدد اس وقت سامنے آیا جب انتہائی دائیں بازو کے یہودی گروپوں نے یہودیوں کے پاس اوور کی چھٹیوں کے دوران مسجد اقصیٰ کے احاطے پر چھاپے مارنے اور اس کے صحن میں جانوروں کی قربانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا، جو قدیم زمانے سے نہیں ہوا تھا۔
بیت حنون سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ ایمن الثمنیہ نے کہا کہ وہ مقبوضہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں مسجد اقصیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سختی سے مسترد کرنے کے لیے شمالی غزہ میں احتجاج میں شامل ہوا۔
انہوں نے کہا کہ "ہم مغربی کنارے میں اپنے تمام لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ غزہ کے عوام دل و جان سے آپ کے ساتھ اور مزاحمت کے ساتھ ہیں۔ ہم غزہ میں مسجد اقصیٰ کی خاطر کسی بھی قربانی کے لیے تیار ہیں۔
43 سالہ اشرف عواد نے جمعہ کی صبح الاقصیٰ میں جو کچھ ہوا اس پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کہاں ہیں جو کچھ ہو رہا ہے؟ ہر روز وہاں شہید ہوتے ہیں، لوگ مارے جاتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں اور چھاپے اور اشتعال انگیزی ہوتی ہے”۔
اشرف عواد کا کہنا ہے کہ آج جو کچھ ہم نے دیکھا وہ بہت اشتعال انگیز اور تکلیف دہ ہے۔ خواتین، لڑکیوں اور نمازیوں کی مار پیٹ برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ہم مزاحمت سے جواب دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسرائیل خون کی زبان کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔
57 سالہ ام رائد حجاج سالم نے کہا کہ اسرائیلی چھاپوں کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ "غصے سے اس کے سینے میں آگ جل رہی ہے”۔ "کاش کراسنگ کھلی ہوتی اور ہم اس کے دفاع کے لیے غزہ سے مسجد اقصیٰ تک جا سکتے۔
واضح رہے کہ جمعہ کے دن نماز فجر کے دوران اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصی میں داخل ہوکر نمازیوں پر تشدد کیا جس کے بعد جھڑپوں میں سینکڑوں فلسطینی افراد زخمی ہوئے ہیں۔