ریاست کرناٹک میں مسلم مخالف واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے حجاب تنازع سے شروع ہوئی فرقہ واریت تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ حجاب پر پابندی، میلوں میں مسلم تاجروں پر پابندی، حلال گوشت کے خلاف مہم، مسلم پھل فروشوں اور اب مسلم ٹیکسی اور آٹو ڈرائیورز فرقہ پرست عناصر کی نفرت کا شکار ہورہے ہیں۔
ہندو جاگرانا ویدیکے (HJV) کے ممبران کو مہلنگیشور جاتھرا (مقامی میلے) کے موقع پر پٹور ضلع میں ہندو آٹو ڈرائیوروں کو بھگوا جھنڈے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
ٹویٹر پر سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں ہندوتوا تنظیم کے ارکان کو مسلم آٹو ڈرائیوروں کے بائیکاٹ کی مہم چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
Karnataka: After #MangoBoycott now it’s #AutoBoycott.
HJV is campaigning in Puttur to boycott Muslims auto.
For ‘Mahalingeshwar Jathra’ Hindus are being requested to use only Hindus autos.
Saffron flags are distributed and tied to Hindus owned Autos so that people can identify. pic.twitter.com/hkLFB7MVWN— Mohammed Irshad H (@Shaad_Bajpe) April 9, 2022
جھنڈا وصول کرنے والے ڈرائیور کو تنظیم کے ایک بوڑھے رکن کے پاؤں چھوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
ہندوتوا تنظیم کے افراد لوگوں کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ صرف ہندو ڈرائیوروں کے ذریعہ چلائے جانے والے آٹوز کا استعمال کریں جنہیں شناخت کے لیے زعفرانی پرچم باندھنے کو کہا گیا تھا۔
کرناٹک میں مسلمانوں پر مظالم
اس سال جنوری میں جب سے حجاب پر پابندی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، کرناٹک میں اسلامو فوبیا کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ریاست کے مختلف اضلاع سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مسلم مخالف ہندوتوا جارحیت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد ریاست کو اب ‘جنوبی ہندوستان کا اتر پردیش’ کہا جا رہا ہے۔
حجاب پر پابندی سے لے کر اقلیتی برادریوں پر مختلف بلا واسطہ اور بالواسطہ حملوں تک، پچھلے چند مہینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ایک جارحانہ اور نفرت انگیز ہجوم کرناٹک میں مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگی کو مشکل بنانے پر تلا ہوا ہے۔
24 مارچ کو منگلورو ضلع کے قریب بپناڈو درگاپرمیشوری مندر کے سالانہ میلے میں مسلم مخالف بینرز لگائے گئے تھے۔ بینرز میں کہا گیا کہ کسی بھی مسلمان تاجر کو مندر کے احاطے کے قریب کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اگلے دن، 25 مارچ کو، بجرنگ دل کے غنڈوں نے مسلم تاجروں کو پھلوں اور جوس کے اسٹالز بند کرنے اور کوڈاگو ضلع کے شنیوارپیٹ میں ریاستی سطح کے زرعی پروگرام کے احاطے کو خالی کرنے پر مجبور کیا۔
27 مارچ کو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریا نے کولار میں مسجد ای حسینی مکن اور شہباز شاہ کھلندر درگاہ کے سامنے اپنی سائیکل ریلی کو روکا اور بھگوا پرچم لہراتے ہوئے اونچی آواز میں موسیقی کے ساتھ رقص کیا۔
Tejasvi Surya had organised a cycle rally from Bangalore to Kolar on March 21. When the rally reached the Hussaini Makan Masjid of Kolar the people who participated in the rally stopped and started doing this nuisance.
What is the message? pic.twitter.com/9UwiZlGbEm
— Mohammed Irshad H (@Shaad_Bajpe) March 29, 2022
30 مارچ کو، بجرنگ دل کے فرقہ پرست عناصر نے بنگلورو کے نیلمنگلا اُگدی میلے میں سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے ہندو دکانداروں سے کہا کہ وہ مسلمان دکانداروں سے گوشت نہ خریدیں۔ پوسٹر بھی چھاپے گئے تھے جس میں یہی کہا گیا تھا۔
#bajrangdal members patrolling streets in Nelamangala #Ugadi fair in #Bengaluru asking #Hindus vendors not to buy meat from #Muslim shopkeepers. (1/2) pic.twitter.com/ay6AXjTaqX
— Imran Khan (@KeypadGuerilla) March 30, 2022
شیموگا ضلع کے بھدراوتی شہر میں ایک چکن شاپ کے مالک پر دائیں بازو کے غنڈوں نے حملہ کیا۔ حملہ آور جو کہ دکان کے باقاعدہ گاہک تھے، غیر حلال گوشت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جب دکان کے مالک سید انصار نے غیر حلال گوشت فروخت کرنے سے انکار کیا تو غنڈوں نے اس پر اور اس کے کزن توصیف کو مارنا شروع کردیا۔
واضح رہے کہ کرناٹک میں دن بہ دن فرقہ وارانہ ماحول اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز واقعات کے خلاف ریاست کے انٹلیکچول افراد نے وزیراعلی کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ان حالات پر قابو پانے کی اپیل کی تھی۔ بائیوکان کمپنی کی بانی کرن مزمدار نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ‘آئی ٹی ہب’ کے نام سے مشہور کرناٹک کہیں فرقہ واریت تہس نہس نہ کردے۔