یوں تو اللہ بتارک وتعالیٰ نے امت مسلمہ کو نماز روزہ، حج، زکوٰۃ، وغیرہ جیسی بہت سی عبادتیں عطا فرمائی ہیں، جن کے ذریعہ بندہ اپنے رب کی بڑائی بیان کرتا ہے، اپنی نیاز خم کرکے عبدیت کا اظہار کرتا ہے، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یا اللہ توہی میرا رب ہے میں تیرا بندہ ہوں۔
الغرض عبادت کی جتنی شکلیں اللہ تعالیٰ نے سکھلائی ہیں ان کو اختیار کرکے بندہ حق بندگی ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے۔ کیوں کہ اللہ نے اس کو پیدا اسی مقصد کے لئے کیا ہے۔ جیسا خود اللہ نے اس کی وضاحت کی ”وماخلقت الانس والجن الا لیعبدون“ میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔(الذاریات:۶۵)۔
بندگی کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے، اس کا کیا مطلب؟ کیا اس کا مطلب صرف یہ ہیکہ بندہ دن میں پانچ وقت کی نماز ادا کرلیا، رمضان کے مہینے میں تیس دن روزے رکھ لیا اور اگر اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو سال میں زکوٰۃ ادا کردی اسی طرح زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلیا تو کیا اس سے حق بندگی ادا ہوگئی؟ اور اب انسان اس کے بعد آزاد ہوگیا ہے؟ جو چاہے کرے؟
بندگی کا مقصد یہ نہیں ہے۔ بلکہ بندگی کا مقصد یہ ہے کہ ان عبادتوں کے ذریعہ انسان کی تربیت ہو اور اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے، خواہ جس کی حالت میں ہو، اسے ہر وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کا مالک اسے دیکھ رہا ہے، اور مالک کے حکموں کے بنا زندگی گزارنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
مذکورہ بالا میں عبادت کی جتنی شکلیں بیان کی گئی ہیں ان تمام شکلوں میں روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا حال خدا اور بندے کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، شاید اسی لئے حدیث قدسی میں روزہ کے انعام کے سلسلے میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ”آدمی کا ہرعمل خدا کے یہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے ایک نیکی دس گنی سے سات سو گنی تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگراللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ اس سے مستثنی ہے۔ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں اس کا جتنا چاہتا ہوں بدلہ دیتا ہوں“۔ (مسلم:۱۵۱۱)
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، روزہ دار قیامت کے دن اسی سے جنت میں داخل ہونگے، کوئی اور ان کے ساتھ داخل نہ ہوسکے گا، پوچھا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پھر اس سے داخل ہونگے اور جب آخری شخص داخل ہوجائے گا تو اسے بند کردیاجائے گا اور پھر کوئی اس دروازہ سے داخل نہ ہوسکے گا “(مسلم: ۰۱۷۲)
اس کے علاوہ جتنی عبادتیں ہیں کوئی عبادت کسی سے مخفی اور ڈھکی چھپی نہیں ہے، نماز کو عماد الدین کہا گیا ہے، لیکن دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال واظہار پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں گھر کی چہار دیواری میں بھی اداکی جانے والی نماز کسی سے مخفی نہیں، ہر شخص اس کی عبادت سے واقف ہوتا ہے۔
اسی طرح حج میں بندہ ایک لمبا سفر کرتا ہے ہزاروں لاکھوں کے ساتھ ہوتا ہے، گاؤں اور محلہ کا ہرشخص واقف ہوتا ہے کہ فلاں صاحب حج کو تشریف لے جارہا ہے اور جب فریضہ حج ادا کرکے اپنے وطن واپس آتا ہے تو ہر خاص وعام اسے ’حاجی صاحب‘ نام سے جانتے ہیں۔ گویا یہ عبادت چھپانے سے بھی نہیں چھپ سکتی۔
اسی طرح صاحب نصاب مالدار اپنی زکوٰۃ کو کتنا ہی چھپا کر ادا کرے کم از کم لینے والا تو جانتا ہے کہ فلاں شخص نے دیا ہے چنانچہ یہ سب عبادتیں ایسی ہے کہ چھپائے بھی چھپ نہیں سکتی اگر آپ اداکرتے ہیں پھر بھی لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور ادا نہ کریں تب بھی لوگوں کو خبر ہوہی جائے گی۔
اس کے برخلاف روزہ ہے جس کا گواہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہوتا ہے اس کے سوا کسی کے سامنے اس کی حقیقت نہیں کھل سکتی۔ ایک شخص سب کے ساتھ مل بیٹھکر سحری کھاتا ہے اور افطار تک ظاہر ی طور پر کچھ نہ کھائے مگر چھپ چھپا کر پانی پی لے، یا کچھ کھا لے تو اللہ کے سوا کسی کو اسکی خبر نہیں ہوسکتی، سارے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں صاحب روزہ سے ہے، لیکن حقیقت میں وہ روزہ سے نہیں ہوتا۔
روزہ دارکو اللہ پر اور آخرت پر اس قدر یقین ہوتا ہے کہ سخت گرمی میں بھی جب حلق خشک ہو جاتاہے، پیاس کی شدت اسے بے چین کرتی ہے، بھوک سے وہ تڑپتا ہے اسی حالت میں اس کے سامنے انواع و اقسام کی چیزیں ہوتی ہیں اگر کھا بھی لے تو کون اسے دیکھ رہا ہے؟ لیکن اس کے باوجود وہ ان کو ہاتھ نہیں لگاتا اور دل میں یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اس بند کوٹھری میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے، ہم اوروں کی نظروں سے اوجھل ہوسکتے ہیں لیکن اس کی نظروں سے کیسے بچ پائیں گے جو باریک بیں ہے، جس کی نگاہیں ہرچیز کو گھیرے ہوئی ہیں،اسی یقین کی بنیاد پر اللہ کی حکموں کو بجا لاتا ہے سحرسے لیکر سورج کے ڈوبنے تک کھانے پینے اور خواہشات سے اپنے آپ کو روکتا ہے صرف اس بنیاد پرکہ اس کا رب اس سے یہی چاہتا ہے۔
روزہ کا مقصد تقوی کی صفت سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے اور اللہ کا بندہ بننے او ر اس کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے لئے بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کرنا، جائز خواہشات سے اجتناب کرنا انسان کو تقویٰ کی نعمت سے مالامال کرتا ہے، جو دنیا اورآخرت کی بھلائی کا ذریعہ ہے اور انسان کے اندر اس کے ذریعہ ایسی صلاحتیں پیدا ہوتی ہیں جو انسان کو ہدایت سے فیض یاب ہونے میں معاون ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے سب سے پہلی شرط جو بیان کی ہے وہ تقویٰ ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”ھدی للمتقین“ ہدایت متقیوں کے لئے ہے (البقرہ:۲)
روزہ انسان کے اندر وہ تقوی پیدا کرتا ہے جو ہدایت ربانی کے لئے مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ”لعلکم تتقون“ تم پر روزہ فرض کیاگیا تاکہ تم متقی وپرہیز گار بن جاؤ(البقرہ:۳۸۱)۔ چنانچہ جو روزہ کے مقصدکو سمجھے گا اور اس کے ذریعہ سے اصل مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تووہ تھوڑا یا بہت متقی ضرور بن جائے گا۔ لیکن جو مقصد کو نہ سمجھے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اس کے لئے بھوک پیاس رہنے کے سواکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
لہذا ہمیں چاہئے کہ روزہ کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے روزہ رکھیں، اللہ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں، روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنے، غیبت اور چغل خوری سے اجتناب کریں، نیکیوں میں کثرت کریں نوافل اور قرآن کریم کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں۔ اللہ ہمیں رمضان سے صحیح طور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔