Rulings on Sahar and Iftar
اسلامی مضامین

سحر و افطار کے احکام

اسلام ایک سہل العمل دین ہے‘ جس میں ہر کس و ناکس کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں‘ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی کم فہمی اور نادانی کے باعث شریعت کی عطا کردہ سہولتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور خواہ مخواہ مشقت اٹھاتے ہیں۔

افطار میں جلدی: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔“٭ اسی طرح دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔“

٭ حدیث قدسی ہے کہ:”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں“۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔

سحری میں تاخیر:

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اور سحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔“

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت میری سنت پر اس وقت تک برابر قائم رہے گی‘ جب تک کہ وہ روزہ افطار کرنے کے لئے ستاروں کا انتظار نہ کرنے لگے گی“۔آپ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس تھا‘ جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔

حضرت ابن حجر عسقلانی رحمت اللہ علیہ حضرت ابن حجر عسقلانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے‘ مثلا اتباع سنت‘ یہود و نصاری کی مخالفت‘ عبادت پر قوت حاصل کرنا‘ آمادگی عمل کی زیادتی‘ بھوک کے باعث جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے‘ اسکی مدافعت سحری میں کئی حقداروں اور محتاجوں کو شریک کر لینا‘ جو اس وقت میسر آ جاتے ہیں۔

علامہ ابن دقیق العید رحمت اللہ علیہ علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا ہے۔ لیکن اگر آدمی اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں‘ بلکہ ختم ہی ہو کر رہ جائیں۔ اور یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دن بھر کی کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس چیز سے روزہ افطار فرماتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔

حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔“ہمارے ہاں اکثر و بیشتر افطاری کے وقت عجیب مضحکہ خیز صورت نظر آتی ہے۔

یہ ہماری مجلسی زندگی کا خاصہ ہے‘ جو الا ماشاء اللہ افراتفری‘ بدنظمی اور ذہنی انتشار کی آئینہ دار ہے۔ اس کی ایک جھلک افطاری کے وقت بھی نظر آتی ہے۔ ادھر مغرب کی اذان بلند ہوئی‘ اس کے ساتھ ہی ایک ہنگامہ شروع ہو گیا اور افطاری کے لئے بھاگم دوڑ مچ گئی۔ کوئی جلدی سے کھانے کی طرف لپک رہا ہے اور کلی کر کے مسجد کی طرف بھاگ رہا ہے۔

موذن کے اذان سے فارغ ہونے کے فوراً بعد مغرب کی نماز کھڑی ہو گئی۔ اس افراتفری میں افطاری کرنے والوں میں سے کسی کو دوسری اور کسی کو آخری رکعت میں جماعت ملی۔ بدنظمی اور عدم توازن پر مبنی یہ صورت حال ہماری کج فہمی کی پیداوار ہے‘ ہم اپنی لاعلمی کی بنا پر نماز مغرب میں غیر ضروری عجلت کو روا گردانتے ہیں‘ حالانکہ نماز کا وقت اتنا تنگ بھی نہیں‘ جتنا ہم سمجھ بیٹھے ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ ہم دس پندرہ منٹ افطاری کے لئے دیں اور پھر اطمینان اور یکسوئی سے نماز مغرب باجماعت ادا کریں۔ اتنا وقفہ کرنے سے نماز مکروہ نہیں ہو گی۔ فقہی اعتبار سے نماز مغرب کا وقت گرما و سرما کے موسموں کے تفاوت کے پیش نظر سوا گھنٹے سے ڈیڑھ گھنٹے تک رہتا ہے۔ یہ اس کی آخری حد ہے اور اس کے بعد عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ لہذا مناسب اور احسن بات یہی ہے کہ چند منٹوں کے توقف کے بعد نماز مغرب کی جماعت کا اہتمام کیا جائے‘ تاکہ سب مسلمان آسانی سے شامل جماعت ہو سکیں۔

اسلام ایک سہل العمل دین ہے‘ جس میں ہر کس و ناکس کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں‘ لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنی کم فہمی اور نادانی کے باعث شریعت کی عطا کردہ سہولتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور خواہ مخواہ مشقت اٹھاتے ہیں۔