بھارت کا ایک چھوٹا سا پڑوسی ملک "سری لنکا” ان دنوں شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور وہ پوری طرح کنگال ہوچکا ہے، وہاں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، روز مرہ کی بنیادی اشیاء عوام کی پہونچ سے باہر ہوچکی ہے،گذشتہ ایک ہفتے سے وہاں افراتفری جاری ہے۔
سری لنکا میں معاشی و مالیاتی بحران شدید ہوچکے ہیں اور وہاں کی عوام سخت دشواریوں کا سامنا کررہی ہے، صدر جی راجہ پکشے نے اس بحران سے نمٹنے کےلئے ایک اہم اقدام کے طور پر ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے،گذشتہ جمعرات کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں عوام سڑکوں پر نکل پڑے تھے، اور صدر کی قیام گاہ کے سامنے بڑے پیمانے پرجمع ہوکر شدید احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا، جسکے بعد صدر نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔
خبروں کے مطابق وہاں گذشتہ ایک ماہ سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، وہاں کی عوام ملک کے معاشی ومالیاتی بحران کے لئے سری لنکا کی موجودہ حکومت کو ذمہ دار قرار دیتی ہے،کسی بھی ملک میں درپیش سنگین مسائل کو حل کرنےکےلئے جب بھی عوام کوئی احتجاج منظم کرتے ہیں تو حکومت وقت اسے اپنے خلاف منظم سازش قرار دیتے ہوئے اسے بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتی ہے،سری لنکا کی حکومت بھی یہی کھیل کھیل رہی ہے، حالانکہ حکومت کی اولین ذمہ داری معاشی ومالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہے، لیکن ایمرجنسی کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عوام کی آواز کچل دینا چاہتی ہے۔
سری لنکا میں اس وقت کرنسی ایندھن اور غذائی اشیاء کا شدید بحران ہے، وہاں کے موجودہ صدر 2019 سے حکومت کررہے ہیں، ان کی پارٹی سری لنکا پوڈو جانا نے 2020 میں پارلیمانی الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی، اس وقت راجہ پکشے کو معاشی ومالیاتی بحران کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے اپوزیشن سمیت دیگر سیاسی لیڈران کے علاوہ سب کا تعاون حاصل کرنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، ایمرجنسی کے نفاذ سے برسراقتدار پارٹی اور اپوزیشن دونوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔
سری لنکا عرصہ سے معاشی مسائل سے نمٹ رہا ہے، اس دوران کورونا وباء سے معیشت پر کاری ضرب لگی اور اب حکومت بے شمار مسائل میں گھرچکی ہے، حکومت کے شہرت پسند اقدامات کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ پڑا جسکے نتیجے میں جاریہ بحران سے نمٹنا حکومت کے لئے کافی مشکل ہوگیا ہے، حالات دن بہ دن وہاں خراب ہورہے ہیں،اور حکومت کے پاس ان حالات سے فوری نمٹنے کےلئے کوئی روڈ میپ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن بھی حکومت پر شدید تنقید کررہی ہے، سری لنکا ایک طرف چین کے قرض کے جال میں پھنس چکا ہے تو دوسری طرف معاشی ومالیاتی بدنظمی کی وجہ سے آمدنی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
بگڑتی معاشی صورتحال کے درمیان کابینہ کے وزراء نے اجتماعی استعفیٰ دیدیا ہے، وزراء نے یہ قدم صورتحال سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف احتجاجاً اٹھایا ہے، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے وزیر اعظم مہندرا راجہ پکشے اور انکے بھائی گوٹابایا راجہ پکشے کے علاوہ تمام 26 وزراء نے اجتماعی استعفیٰ دیدیا ہے، سری لنکا جزیرے والا ملک ہے، جسکی کل آبادی تقریباً20,2 ملین ہے، پارلیمنٹ میں 225 سیٹیں ہیں، وہاں مسلمانوں کی آبادی 7,6 فیصد ہے، سری لنکا بھارت کے جنوبی مشرقی، بحر ہند سے متصل واقع ہے، اس کے پاس 65,610 مربع کیلو میٹر(25,332 مربع میل) کا علاقہ ہے، ایک صدی سے زائد تک برطانیہ نے اس جزیرے پر حکومت کی اور پھر 4 فروری 1948 کو اسے مکمل طور پر آزاد کردیا گیا۔
اس آزادی کے بعد سے سری لنکا کو اب تک کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے، یہ بحران ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں بھاری کمی کے باعث پیدا ہوا ہے جو ایندھن کی درآمدات کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اس وقت ملک بھر میں بجلی کی طویل بندش، اشیائے خورد و نوش اور ادویات جیسی بنیادی اشیاء کی وہاں شدید قلت ہے،سری لنکا کو کبھی سونے کی لنکا بھی کہا جاتا تھا، لیکن آج وہاں حالات انتہائی تشویشناک ہیں وہاں حالت اتنے بدترین ہوچکی ہیں کہ امتحانات لکھنے کےلئے کاغذ تک دستیاب نہیں ہیں، ہرطرف دکانات، بینکس اور دوسرے اداروں پر عوام کی طویل قطاریں لگی ہیں۔
عالمی مارکٹ سے سامان خریدنے کے لئے انکے پاس پیسے نہیں ہیں، دودھ، دوائیں، پانی، پھل اور سبزیوں سمیت ضروریات کی تمام چیزوں کی شدید قلت ہوگئی ہے، گویا یہ ملک قحط سالی کا شکار ہوگیا ہے، روزمرہ کے اشیاء کی قیمت آسمان پر ہیں، دال کی قیمت 2020 میں 180روپے فی کیلو تھی، آج 420روپے فی کیلو ہے، یہی حال خوردنی تیل کا بھی ہے، 480 روپے فی لیٹر تیل دوسال میں 870روپے فی لیٹر ہوگیا ہے، 2020 میں وہاں پٹرول 137 روپے فی لیٹر تھا جوآج 254 روپے فی لیٹر تک پہونچ گیا ہے، لوگوں کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، حالات اتنے سنگین ہیں کہ وہاں پوری کابینہ کو راتوں رات استعفیٰ دینا پڑا، وہاں اس افراتفری، اور بدحالی کی کئی ایک وجوہات ہیں۔
ان میں سے ایک اہم اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بدعنوانی، جھوٹی ترقی کی تشہیر، عوام کو دکھائے جانے والے دلکش خواب، قرض کا بڑھتا شکنجہ، غلبہ کی سیاست اور نفرت کا فروغ بھی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان کی طرح وہاں اقتدار سنبھالنے والے راجاپکشے کی حکومت نے بدھ مذہب کے قائدین کے اشارے پر مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا تھا، نفرت کا پرچار کرتے ہوئے وہاں بھی مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی، کبھی حجاب اور کبھی مساجد پر نشانے سادھے گئے تھے لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی، ان شرپسندوں پر لگام لگانے کےلئے وہاں کی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا تھا۔
آج جبکہ وہاں بدترین معاشی بحران جاری ہے کیا اس سے بھارت کوئی سبق لینے کے لئے تیارہے؟ سری لنکا آج جس موڑ پر کھڑا ہے بھارت بھی دانستہ اسی راستے پر جارہا ہے، اگر بھارت کے سیاسی لیڈروں نے اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی اور کوئی سبق نہیں لیا تو بھارت دوسری بدترین معاشی تباہی اور بحران کا مرکز بنے گا، ہندوستان کے موجودہ حالات پر ایک نگاہ ڈالئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ملک کے حالات بہت حدتک سری لنکا سے مماثلت رکھتے ہیں،جس طرح سری لنکا کی حکمراں سیاسی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مفت تقسیم کا وعدہ کیا اوراسے قرض لیکر پورا کررہی تھی، ٹھیک اسی طرح بھارت میں بھی ہورہا ہے، مفت تقسیم کی وجہ سے ملک کی کئی ریاستیں تباہی کی دہلیز پر کھڑی ہیں، اور نہ صرف ریاستوں کا خزانہ خالی ہے بلکہ قرض کے بھاری بوجھ کی وجہ سے انکی معیشت چر مراگئی ہے۔
صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ملک کے کئی نوکر شاہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کو خبردار کیا ہے کہ ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے سیاسی پارٹیوں کے ذریعے مفت تقسیم کا سلسلہ جاری ہے، جسکی وجہ سے ملک کی کئی ریاستیں تباہی کے دہانے پر پہونچ گئی ہیں، اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو یہ ریاستیں سری لنکا اور یونان کی طرح کنگال ہوجائیں گی، وزیراعظم کے ساتھ چارگھنٹوں تک ہونے والی اس طویل میٹنگ میں چند سکریٹریوں نے اس بارے میں کھل کر بات کی، اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کچھ ریاستی حکومتوں کے عوامی اعلانات اور اسکیموں کو زیادہ دنوں تک جاری نہیں رکھا جاسکتا اور مفت والی اسکیمیں زیادہ دنوں تک نہیں چلائی جاسکتی، خاص طور پر مقروض ریاستوں میں اسطرح کی اسکیمیں چلانا بہت خطرناک ہے۔
ہمیں سری لنکا کی افراتفری سے سبق لینے کی ضرورت ہے، اگر ان پر فی الفور روک نہیں لگائی گئی تو اس سے ریاستیں مالی طور پر دیوالیہ ہوجائیں گی، ان نوکر شاہوں نے بتایا کہ پنجاب، دہلی، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کی جانب سے کئے جانے والے اعلانات غیر عملی ہیں اور ان کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے مفت بجلی اسکیم کی وجہ سے ریاست کے خزانے پر بوجھ پڑرہا ہے اور صحت و تعلیم جیسے اہم ترین سماجی شعبوں کے لئے رقم میں کٹوتی کی جارہی ہے، ان نوکر شاہوں کے انتباہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
آج ملک میں ووٹوں کی سیاست کی وجہ سے انتخابی وعدوں میں فری راشن سے لیکر دوسری چیزوں کی مفت تقسیم کی جو روایت چل پڑی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے، مفت تقسیم کا یہ رجحان جہاں صاف شفاف انتخابات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہیں سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ پڑرہا ہے، الیکشن جیتنے کے لئے سیاسی پارٹیاں دونوں ہاتھوں سے سرکاری خزانہ لٹاتی ہیں، آمدنی کے ذرائع محدود ہونے کے باوجود مفت تقسیم کی مختلف اسکیمیں جاری کردی جاتی ہیں، جسکے نتیجے میں ریاستیں قرض میں ڈوب جاتی ہیں، اب تک ریاستوں پر کتنا قرض ہے اور اسکی حالت کیا ہے ؟
آئیے ذرا ایک سرسری نگاہ اس پر ڈالتے ہیں، یوپی 6,53 لاکھ کروڑ روپے، مغربی بنگال 5,62لاکھ کروڑ روپے،گجرات 5,02 لاکھ کروڑ روپے،آندھرا پردیش 3,98لاکھ کروڑ روپے،پنجاب 2,82 لاکھ کروڑ روپے اور بہار2,46 لاکھ کروڑ روپے قرض واجب الادا ہے جسے ریزرو بینک آف انڈیا کو لوٹانا ہے، سری لنکا میں بھی یہی کچھ ہوا تھا جس کا نتیجہ آج وہاں کے عوام بھگت رہے ہیں، سیاسی پارٹیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مفت اسکیم کی سیاست ملک کو زوال کی جانب لے جارہی ہے، اگر سیاسی جماعتوں اور ریاستی حکومتوں نے یہ رویہ ترک نہیں کیا تو اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑےگا۔
ابھی وقت ہے سری لنکا سے سبق لیتے ہوئے اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے، ملک کی ترجیح عوامی مقبولیت والی اسکیموں کے بجائے ایسی معاشی پالیسی ہونی چاہئے جس میں ٹکاؤ ہو تاکہ ترقی کا فائدہ ملک میں بسنے والے ہر شخص کو پہونچے اور سری لنکا جیسے حالات سے بھارت کو محفوظ رکھا جاسکے، دو کروڑ 20لاکھ آبادی والے ملک سری لنکا کی جب اتنی سنگین حالت ہے تو اگر ہندوستان اس بحران میں مبتلا ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ اس وقت بھارت کی حالت یہ ہے کہ یہاں کی بعض ریاستوں کی حالت سری لنکا سے بھی بدتر ہوچکی ہے، سری لنکا سوا دو کروڑ کی آبادی والا ملک ہے اس سے کئی گنا زیادہ آبادی یہاں کی ریاستوں میں ہے، اور یہاں کی ریاستیں بری طرح قرض میں ڈوب چکی ہیں، یہاں بینک کو لوٹنے اور اسے کنگال بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے،کارپوریٹ کو بڑی تعداد میں حکومت کی جانب سے رعایت دی جارہی ہے اور ان کے قرضے معاف کئے جارہے ہیں۔
بھارت کی حالت یہ ہے کہ اگر ہم یہاں کا جائزہ لیں تو یہاں کی ہر ریاست اپنی جی ڈی پی کے اعتبار سے 35 فیصد قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں، اگر ملک کی ساری ریاستوں کا قرض ملادیا جائے تو بھارت کا قرض 80 لاکھ کروڑ روپے سے زائد ہوجاتا ہے، ایک طرف بھارت کنگال ہورہا ہے،بعض ریاستوں پر جی ڈی پی کے اعتبار سے 50 فیصد سے زیادہ کا قرض ہے، ایسے میں وہ ریاست تو بالکل کنگال ہوچکی ہیں، دوسری طرف اڈانی کا کاروبار 100 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔
اب آپ سمجھئے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ بھارت کی اکنامی مسلسل نازک بنتی جارہی ہے اور بھارت کنگال ہونے کی جانب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، اڈانی کا نیٹ ورک 100 ارب ڈالر پر پھیل جائے اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ اور اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہوگی کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ قرض میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور50 ہزار سے زیادہ کا وہ مقروض ہوتا ہے، سو ارب ڈالر کے ساتھ گوتم اڈانی ایشیاء کے سب سے امیر ترین شخص ہیں، اور 99ارب ڈالر کے ساتھ انیل امبانی ایشیاء کے دوسرے نمبر کے سب سے مالدار شخص ہیں اور ان دونوں کا تعلق بھارت ہے۔
سوال یہ ہے کہ بھارت میں مہنگائی،بے روزگاری اور بھوک مری جب عروج پر ہے ایسے مالداروں کی دولت میں مسلسل اضافہ کیسے ہورہا ہے؟ حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے ملک کا غریب اور غریب ہوتا جارہا ہے اور دولت مند مزید مالدار ہوتا جارہا ہے، ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے لیکن اسکے باوجود مودی سینٹرل وسٹا کی تعمیر کے ہزاروں کروڑ روپے خرچ کررہے ہیں، اپنے لئے 14/14 کروڑ کا جہاز خرید رہے ہیں، روزانہ دس لاکھ روپے کا سوٹ زیب تن کررہے ہیں، لوگ دانے دانے کو محتاج ہیں لیکن اسکے باوجود وزیراعظم لاکھوں روپے کی کار ہر سال تبدیل کررہے ہیں، کیا اس طرح ملک ترقی کرے گا؟
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ حکومت کی یہ غلط پالیسی بہت جلد ملک کو اقتصادی بحران میں مبتلاء کردےگی؟ اس ملک کو سری لنکا کی طرح کنگال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے،لیکن ابھی بھارت کے لوگوں کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے،کیوں کہ ابھی یہاں نفرت کی کھیتی کرنی ہے، اس کو فروغ دینا ہے، اور ہندو مسلم کرکے ووٹ حاصل کرنا ہے اور پورے ملک میں مسلم مخالف ماحول تیار کرنا ہے۔
ابھی اس ملک کے لئے مہنگائی،بے روزگاری اور بھوک مری کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے، سری لنکا پر اس کے جی ڈی پی سے 93 فیصد قرض زیادہ ہوگیا اور سری لنکا دیوالیہ ہوگیا۔ ہمارا ملک بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ انڈیا پر بھی اس کی جی ڈی پی سے 83 فیصد زیادہ قرض ہوچکا ہے۔ لیکن یہاں کے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ مذہب کے نام پر جس دہشت گردانہ ذہن کی تشکیل کی گئی ہے وہ صرف کسی معصوم کا خون پی کر سکون پاتا ہے۔ اسے دوسرے مسائل سے کوئی مطلب نہیں۔اس لئے بےفکر رہئے کہ اتنی جلدی بھارت سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
( ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)