سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا
قومی خبریں

‘کرولی کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونکنے والے شر پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے’

جئے پور۔ (پریس ریلیز)۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) راجستھان کے ریاستی سکریٹری ڈاکٹر شہاب الدین خان نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں راجستھان وزیر اعلی اشوک گہلوت سے مطالبہ کیا ہے کہ کرولی شہر کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونکنے والے شر پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور جن مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر جلایا گیا انہیں مناسب معاوضہ دیا جائے۔

ڈاکٹر شہاب الدین خان نے وزیر اعلی سے مطالبہ کیا کہ ان پولیس افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جن کی لاپرواہی کی وجہ سے کرولی میں فرقہ وارانہ واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے سوشیل میڈیا پر چلنے والی درجنوں ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ سی ایل جی کی میٹنگ میں کرولی کی مسلم کمیونٹی نے انتظامیہ سے درخواست کی تھی کہ اس علاقے سے ہندو نئے سال کی ریلی کی اجازت نہ دی جائے۔ اس کے باوجود بھی انتظامیہ نے اجازت دے دی۔

اگر انتظامیہ ڈی جے پر چلائے جانے والے اشتعال انگیز گانوں پر پابندی لگادیتی تو شاید اس ناخوشگوار واقعے کو روکا جاسکتا تھا، لیکن پولیس کی موجودگی میں شر پسند نہ صرف اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہے بلکہ پولیس کی موجودگی میں چن چن کر مسلمانوں کے املاک کو نذر آتش کرتے رہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہی نہیں بلکہ کرفیو لگانے کے بعد بھی مسلمانوں کی دکانیں جلائی گئیں جس کی درجنوں ویڈیوز سوشیل میدیا پر موجود ہیں۔

ایس ڈی پی آئی ریاستی سکریٹری ڈاکٹر شہاب الدین خان نے مطالبہ کیا کہ اس پورے واقعہ کی غیر جانبدارنہ انکوائری کرائی جائے اور ویڈیو میں نظر آنے والے شر پسندوں کو فوری گرفتار کیا جائے اور ساتھ ہی ان پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے اور شرپسندوں کا ساتھ دیتے رہے۔

پولیس کی طرف سے صر ف مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور کسی بے گناہ کو پھنسایا نہ جائے۔ کرولی واقعہ سے سبق لیتے ہوئے حکومت کو ریاست کے انتظامی نظام کو رست کرنا چاہئے تاکہ ریاست میں امن اور بھائی چارے کی فضا برقرار رہے۔

آنے والے دنوں میں دونوں برادریوں کے کئی تہوار آنے والے ہیں اور سماج دشمن عناصر ریاست کے امن و امان کو بگاڑنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لہذا، حکومت انتظامیہ کو چوکس رکھے۔