ملک بھر میں ان دنوں فرقہ وارانہ ماحول پیدا ہوتا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں اور غذائی عادات بھی ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔کرناٹک میں باضابطہ حلال گوشت کے خلاف مہم چلائی گئی تو وہیں قومی دار الحکومت دہلی اور اترپردیش کے غازی آباد اور دیگر اضلاع میں نوراتری کے موقع پر گوشت کی دکانیں بند کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ گوشت کی دکانیں بند کرنے کی وجہ نوراتری کا تہوار بتایا گیا ہے حالانکہ رمضان المبارک کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔
جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے میئر مکیش سوریان نے گذشتہ روز نوراتری کے دوران گوشت کی دکانیں بند کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر آج سے عمل کیا جا رہا ہے۔ ایس ڈی ایم سی کے اس فرمان کے بعد عوام میں شدید بے چینی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ بالخصوص گوشت کے تاجروں میں شدید برہمی پائی جاتی ہے۔
دہلی میں گوشت کے ایک تاجر نے کہا کہ گوشت کی دکانیں بند ہونے سے تاجروں کو کافی نقصان ہوگا اور رمضان المبارک میں صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آئی اے این ایس نے آن لائن سروے کرنے والے ایجنسی سی ووٹر کے ذریعہ سروے کیا جس میں 60 فیصد افراد نوراتری کے دوران گوشت پر پابندی کی حمایت کرتے نظر آئے جبکہ 28 فیصد لوگوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور کچھ لوگوں نے اس معاملے میں کچھ بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔
اسی طرح تقریباً 54 فیصد لوگوں کی رائے تھی کہ اس فیصلے کا مقصد مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانا تھا، جب کہ کانگریس کے تقریباً 47 فیصد حامیوں نے محسوس کیا کہ اس فیصلے سے مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ملک میں ان دنوں ماحول انتہائی کشیدہ ہوتا جارہا ہے۔ کرناٹک میں پہلے حجاب تنازع شروع ہوا پھر اس کے بعد مندر میلے میں مسلم تاجروں کو اسٹالز لگانے کی اجازت نہیں دی گئی پھر اس کے بعد حلال گوشت کے خلاف باضابطہ مہم چلائی گئی۔ کرناٹک کے ساتھ ساتھ جنوبی دہلی میں نوراتری کے دوران گوشت پر پابندی، اترپردیش کے غازی آباد، رامپور اور دیگر علاقوں میں بھی گوشت کی دکانیں بند کرنے کی ہدایت دی گئی۔