مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب
حالات حاضرہ

مرضی مولی از ہمہ اولی

انسان اس دنیا میں اپنے مقاصد کی تکمیل اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے قسم قسم کی تدبیریں کرتا رہتا ہے، ان تدبیروں کو کار گر کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک جانے کو تیار رہتا ہے، جادو، ٹونے، ٹوٹکے کے ذریعہ بھی اگر ممکن ہو تو مقاصد تک پہونچنے کے لیے زور لگاتا ہے، بس میں ہو تو اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بناتا ہے، اللّٰہ رب العزت ان منصوبوں کو ناکام کرنے اور اپنی مشیت کے مطابق کاموں کو انجام دیا کرتا ہے۔

اللّٰہ کی مشیت کسی چیز کی محتاج نہیں ، اللّٰہ جیسا چاہتا ہے ویساہی ہوجاتا ہے، انسانی فہم سے بات کو قریب کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اسے ’’مکر‘‘ یعنی تدبیر سے تعبیر کیا ہے، بندہ بھی تدبیریں کرتا ہے اور اللّٰہ بھی تدبیریں کرتے ہیں اور اللّٰہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے، وہ جو کرتا ہے اچھا کرتا ہے۔

یہ الگ سی بات ہے کہ بندہ کے عقل وشعور کی رسائی اور اس کی ذہنی رَو کا ادراک وہاں تک نہیں پہونچ پاتا اور وہ سوچتا ہے کہ یہ میرے حق میں اچھا نہیں ہوا، لیکن اللّٰہ کی نظر میں اس کی ضرورت وحاجت ہوتی ہے اور اس کے بغیر معاملہ صحیح رخ کی طرف نہیں جاتا، اس لیے ایسے واقعات کا ظہور ہوتا ہے، جو انسان کو جھنجھوڑے اور اس کے دل ودماغ کو بے چین کردے کہ یہ سب کیوں ہو گیا؛کیسے ہو گیا، اس کی وجہ سے نقصانات کے امکانات بڑھ گیے، لیکن ہم ایمان والوں کا ایمان ویقین ہے کہ کوئی کام اللّٰہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

اگر کوئی پتّہ بھی حرکت کرتا ہے تو اس میں اللّٰہ کی مرضی شامل ہوتی ہے، اور یہ مرضی سب چیزوں پر مقدم ہے، مرضی مولیٰ از ہمہ او لیٰ کا مفہوم یہی ہے، بندہ جن احوال وواقعات کو پسند نہیں کرتا، وہ اللّٰہ کی نظر میں بندہ کے حق میں ہوتا ہے، اور کبھی بندہ جس چیز کوپسند کرتا ہے ،وہ اس کے لئے مناسب نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اللّٰہ جانتا ہے، بندہ نہیں جانتا ۔

پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات کے نتائج کو ہمیں اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے، یہ نتائج خلاف توقع ہیں اور ایک ایسی پارٹی کے حق میں گیے ہیں، جس کی مسلم دشمنی سورج کی روشنی سے زیادہ واضح ہے، حکومت پانے کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے اتنے بلند ہو گیے ہیں کہ کئی گاؤں میں مسلم مخالف نعرے لگ رہے ہیں، مسجدوں سے مائک اتار نے کے واقعات سا منے آرہے ہیں۔

بعض گاؤں میں نکسلیوں کے طرز پر مسلمانوں کو گاؤں خالی کرنے کی نوٹس لگائی گئی ہے اور نوٹس کی تعمیل نہ کرنے پر سخت نتائج کی دھمکی دی جا رہی ہے، ایک نوٹس میں امریکہ کے طرز پر مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

ظاہر ہے یہ طرز عمل اس ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے، مسلمان پہلے بھی ، صبر، عدم تشدد ، تحمل ، برداشت کے ساتھ زندگی گذارتے رہے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں اور نہ ہی چوڑیاں ہم نے توڑی ہیں، مسلمانوں کا طرز عمل بقائے باہم کے اصول پر زندگی گذارنے کا رہا ہے، اور یہ صرف آج کی بات نہیں ہے، مسلمان جب اس ملک میں حکمراں تھے، اس وقت بھی ان کی رواداری مثالی تھی اور اسی رواداری کے طفیل مسلم عہد حکومت میں مختلف مذاہب کو پھلنے پھولنے کا یہاں موقع ملا، ورنہ جس طرح دس سال کی حکومت میں ہندو احیا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف ہنگامہ مچا رکھا ہے، اگر مسلمانوں نے یہ طرز عمل اپنایا ہوتا تو ہندوستان میں دوسرے کسی مذہب کا وجود باقی نہیں رہتا ۔

ان حالات میں غور وفکر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ’’ اعمالکم عمالکم‘‘ کہا گیا ہے، یعنی تمہارے اعمال ہی در اصل تمہارے حکمرانوں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں، اعمال اچھے ہوں گے تو حکمراں اچھے آئیں گے ، اعمال خراب ہوں گے تو ظالم حکمراں مسلط کر دیے جائیں گے۔

اس لیے سوچنا چاہیے کہ یہ ہمارے بد اعمالیوں کی سزا تو نہیں ہے، اگر ایسا ہے اور یقینا ہے، تو ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور انابت الی اللہ کے ساتھ اپنے اعمال کو صالح اور صحیح رخ دینا چاہیے۔ جو احکام خدا وندی اور طریقہ نبوی کے مطابق ہو ، اللّٰہ کی رحمت وسیع ہے، ہمارے اعمال بدلیں گے تو ہم رحمت خداوندی کے مستحق قرار پائیں گے، یوں بھی اللّٰہ کی رحمت ونصرت ہمیں حاصل نہیں ہوتی تو کب کا ہمارا کام تمام ہوجاتا ، اقبال کا یہ شعر غیری اختیار ی طور پر قلم کی نوک پر آگیا ہے۔

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

تاتاریوں کے غلبہ کے بعد ایک شہزادی نے مسلمانوں سے سوال کیا کہ تمہارے اللّٰہ نے حکومت ہمارے حوالہ کر دیا اور تم کو ذلت وخواری کا سامنا کرنا پڑا ، کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ تمہارے اللّٰہ ہم سے زیادہ خوش ہیں اور اس کی محبت ونصرت کے ہم حقدار ہیں۔

ایک اہل اللّٰہ نے بڑا قیمتی جواب دیا ، کہا کہ بکریاں اپنے ریوڑ سے نکل کر ادھر ادھر ہونے لگتی ہیں تو اس کو پھر سے ریوڑ میں لانے کے لیے اس کے پیچھے کتے دوڑائے جاتے ہیں، یہ کتے ان بکریوں کے پاس آگے ، پیچھے دائیں بائیں اس قدر بھونکتے ہیں کہ بکریاں خوف کھا کر پھر سے ریوڑ میں آجاتی ہیں، کتے یہ کام اس وقت تک کرتے رہتے ہیں ،جب تک بکریاں ریوڑ میں واپس نہیں آئیں بکریاں جیسے ہی ریوڑ میں آئیں ان کتوں کا کام ختم ہوجاتا ہے۔

اس لیے حکومت فرقہ پرستوں کے حوالہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لا یا جائے ، جس دن یہ مقصد پورا ہو گیا، سب کچھ بدل جائے گا یہ تدبیر الٰہی ہے اور اللّٰہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔