Muslim van driver beaten up on suspicion of ferrying beef
قومی خبریں

مسلم وین ڈرائیور کی پٹائی

ملک بھر مسلمانوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو کسی نہ کسی بہانے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ریاست اترپردیش کے شہر متھورا میں ایک مسلم شخص کو گائے کے گوشت لانے کے شبہ میں پٹائی کی گئی۔

متھرا: ایک پک اپ وین کے 35 سالہ ڈرائیور کی گاؤ رکشکوں نے گاڑی میں گائے کا گوشت لے جانے اور مویشیوں کی اسمگلنگ کے شبہ میں بے رحمی سے پٹائی کی۔

آئی این ایس کی خبر کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں پٹائی کی جارہی اس شخص کی شناخت محمد عامر کے نام سے ہوئی ہے، اس شخص کو 2-3 افراد نے بیلٹوں سے مارا پیٹا جب کہ اس کی شرٹ پھاڑ دی گئی، پیر کی رات سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو منظر عام پر آیا۔

متاثرہ شخص ان گاؤ رکشکوں سے رکنے کی التجا کرتا نظر آتا ہے، لیکن وہ رحم نہیں کرتے۔ وہ بدسلوکی بھی کرتے تھے۔

ایس پی (سٹی) ایم پی سنگھ نے کہا کہ وین کو رال گاؤں میں دائیں بازو کی تنظیم کے مقامی باشندوں اور گاؤ رکشکوں نے روک لیا یہ وین متھرا کے گووردھن سے ہاتھرس میں سکندر راؤ کی طرف جارہی تھی۔

سنگھ نے کہا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران وین میں کچھ بھی برآمد نہیں ہوا ہے سوائے کچھ جانوروں کی لاشوں کے جن کے لیے عامر کے پاس لائسنس تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشتبہ افراد نے مبینہ طور پر ڈرائیور کو یرغمال بنایا اور اسے بے دردی سے مارا۔

ایس پی نے کہا کہ دو دیگر افراد کو بھی عوام نے وین ڈرائیور کے ساتھ تعلق کے شبہ میں مارا پیٹا، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے تینوں افراد کو ہجوم سے بچایا اور انہیں طبی علاج کے لیے بھیج دیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق عامر کے چہرے اور کندھے پر زخم آئے تھے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ’’اسے کوئی بڑی چوٹیں نہیں آئیں۔

ایس پی (سٹی) نے مزید کہا کہ اس معاملے میں جیٹ پولیس اسٹیشن میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ایک عامر کی طرف سے شکایت درج کرائی گئی جبکہ دوسری وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے گاؤ رکشا وبھاگ کے کنوینر وکاس شرما نے درج کروائی ہے۔

پولیس نے کہا کہ عامر کی جانب سے شکایت پر 16 شناخت شدہ افراد جن میں وی ایچ پی سے تعلق رکھنے والے وکاش شرما اور بلرام ٹھاکر شامل ہیں، اور کچھ نامعلوم افراد کے خلاف دفعہ 307 سمیت ( قتل کی کوشش) آئی پی سی کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں عامر نے کہا ہے کہ "شرما اور ٹھاکر نے رال گاؤں میں ان کی گاڑی کو روکا اور یہ جاننے کے بعد کہ جانوروں کی لاشوں کو ہاتھرس لے جایا جا رہا ہے، انہوں نے اسے بری طرح مارنا شروع کر دیا۔” عامر کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ ان کے نمبر بند تھے۔