قومی خبریں

‘اقلیتوں کو سیاسی پہچان کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے’

نام نہاد سیکولر پارٹیاں بی جے پی کی حکمرانی میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم یا حکومت کے حامی ہجوم کے ذریعے ڈھائے جانے والے مظالم کا مقابلہ نہیں کرسکیں۔

نئی دہلی۔(پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی سکریٹریٹ کا اجلاس 16مارچ 2022 کو مرکزی دفتر نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں موجودہ سیاسی منظرنامے پر تبادلہ خیال کیا گیا اور درج ذیل قرار داد منظور کی گئی۔٭۔

اقلیتوں کو اپنی سیاسی پہچان بنانے کیلئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ پنچاب کے علاوہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج فرقہ وارانہ منافرت، فرقہ وارانہ انتشار اور ذات پات کی تقسیم کے عکاس ہیں۔

بی جے پی کی جیت اس کی مقبولیت یا بہتر حکمرانی کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ موثر طریقے سے معاشرے کو غلط جذبات کے ساتھ پولرائز کرنے میں کامیاب رہی۔

نام نہاد اپوزیشن پارٹیاں موثر انتخابی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور اس پر عمل در آمد کرنے میں ناکام رہے۔

اپوزیشن پارٹیاں یا تو اکثریتی دباؤ کے سامنے دب چکے تھے یا ان کے پاس فسطائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا۔

بی جے پی کے پاس ایک واضح حکمت عملی تھی، اوپر سے نیچے تک مضبوط ڈھانچہ تھا۔

دیگر تمام اہم سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی ویژن، نظریہ، پر عزم کارکنان اور سیاسی ڈھانچہ نہیں ہے۔ بی جے پی کے حریف بڑے پیمانے پر حکومت مخالف جذبات کواستعمال کرنے کے قابل بھی نہیں تھے کیونکہ وہ اپنے کارکنوں اور لیڈروں کی ذہنیت کو جمہوری بنانے میں ناکام رہے۔

سماج وادی پارٹی بھی بغیر کسی واضح ایجنڈے کے انتخابات میں اتری تھی، ان کی توجہ صرف منفی ووٹوں پر مرکوز تھی۔ اس طرح، سماج وادی پارٹی کو شکست ہوئی۔

اس حقیقت کے باوجود کے مسلم اقلیتوں نے سماج وادی پارٹی کو اجتماعی طور پر ووٹ دیا۔ وہ پارٹیاں جو شکایت کررہی ہیں کہ مسلم کمیونٹی نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا مضحکہ خیز ہے کیونکہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بی جے پی کی حکمرانی میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم یا حکومت کے حامی ہجوم کے ذریعے ڈھائے جانے والے مظالم کا مقابلہ نہیں کرسکیں۔

اس کے علاوہ، یہ بھی مضحکہ خیز ہے کہ گزشتہ انتخابات میں جو پارٹیاں مسلم ووٹ حاصل کرکے جیتی تھیں، انہوں نے کھبی بھی مسلمانوں کے ووٹوں سے جیت حاصل کرنے کا دعوی نہیں کیا۔ لیکن جب وہ ہار جاتے ہیں تو شکایت کرتے ہیں کہ وہ ہار گئے کیونکہ مسلمانوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔

اقلیتی برادریوں کو بالخصوص مسلمانوں کو اپنی سیاسی پہچان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ فیصلہ ساز اداروں میں ان کی آواز سنی جاسکے۔

سیاسی طور پر با اختیار بننے کے عملی اقدامات کے بارے میں منصوبہ بندی کرنے کا وقت آگیا ہے، جب سیکولر پارٹیاں یا مسلم امیدوار سیکولر پارٹیوں کیلئے انتخاب لڑ تے ہیں تو وہ ہندوتوا ووٹ بینک کو کھودینے کے خوف سے مسلم مسائل کو اٹھانے میں ہچکچاتے ہیں۔

آر ایس ایس کی طرف سے ہندوستانی آئین کو خطرہ درپیش ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل کیڈر سسٹم کے ساتھ ساتھ فاشزم کے خلاف باقاعدہ منصوبوں کے ساتھ مقابلہ کیا جانا چاہئے۔

اقلیتی گروپوں بالخصوص مسلمانوں کو اپنی تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے ٹھوس کوششیں کرنی چاہئیں۔

ایس ڈی پی آئی قومی سکریٹریٹ اجلاس کی صدارت قومی صدر ایم کے فیضی نے کی۔ قومی نائب صدور اڈوکیٹ شر ف الدین احمد، محمد شفیع، قومی جنر ل سکریٹریان الیاس محمد تمبے، عبدالمجید فیضی، یاسمین فاروقی، سیتارام کھوئیوال، محمد اشرف اور دیگر نے اجلاس میں شرکت کی۔