اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوپیداکیا، اورمرد وعورت کی تخلیق کی، توالد وتناسل کاسلسلہ جاری کیا اورہر دوصنف (مردو عورت) کو اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے حصول کے یکساں مواقع عطا فرمائے اور اپنے جود وکرم ،بخشش وعطا میں کوئی تفریق نہیں کی اور دونوں کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ عہد نبویؐ میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی تعلیم کے حصول میں کوشاں رہتی تھیں اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کمی کا انھیں احساس ہوتا تو دربار رسالت میں استفسار کرتیں اور تعلیم وتعلم کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیث سے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ ہیں، نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عورتوں کاایک وفد آیااور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مردعلم حاصل کرنے میں ہم سے آگے بڑھ گئے۔ اس لیے آپؐ ہمارے لیے کوئی دن مخصوص فرمادیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن کا وعدہ فرمایا، اس دن آپؐ عورتوں کو نصیحت فرماتے، احکام الٰہی کی تعلیم دیتے، پھر عورتیں موقع بہ موقع حاضر ہوکر استفسارات کرتیں اور اپنے اشکالات دور کیا کرتیں، مؤرخین اورسیرت نگاروں نے بہت ساری صحابیات کا تذکرہ کیا ہے، جن کا علم وفضل مسلّم تھا، خود ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بڑی عالمہ، فاضلہ اور فقہ وفتاویٰ میں مجتہدانہ درک رکھتی تھیں، ان کی مرویات کی تعداد دوہزار دوسو دس ہے، کثرت روایت میں پورے ذخیرہ حدیث میں آپ کا نمبر چوتھا ہے، عمر رضا کحالہ نے اعلام النساء کی پانچ ضخیم جلدوں میں خواتین کے علمی مقام اور ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ سلطا ن محمد تغلق ۱۳۲۴ھ تا ۱۳۵۱ھ کے عہد میں مقریزی کی روایت ہے کہ تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اور عالم ہوتی تھیں۔
اور دور کیوں جائیے ماضی قریب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی والدہ خیر النساء بہترؔ اور بہن امۃ اللہ تسنیمؔ کے علم وفضل کو دیکھئے، شعر و شاعری، حدیث وقرآن کا اتنا اچھا علم، بہت سارے ان مردوں کو بھی نہیں ہے، جنھوں نے اسلامی جامعات میں تعلیم حاصل کی ہیں۔
اس طرح عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا اسلامی بھی ہے اور اسلاف کی روایات کے عین مطابق بھی۔
لیکن یہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ انھیں کیا پڑھایا جائے؟ اور کس طرح پڑھایا جائے ،کیا پڑھایا جائے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں دینیات ،تہذیب نفس اور تدبیر منزل کی تعلیم تو لازماً دینی چاہئے، دینیات سے انھیں معاشرت ،معاملات اور عبادات میں اسلامی طریقہ کار کا پتہ چلے گا، تہذیب نفس کی تعلیم سے ان میں اخلاق حسنہ پیدا ہوں گے اور تدبیر منزل سے واقفیت انھیں خانگی امور کے بحسن وخوبی انجام دینے میں معاون ہوگی، اس طرح وہ گھر کی چہاردیواری میں رہ کر بھی اپنے خاندان کی نگہداشت بچوں کی تعلیم وتربیت اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اپنی حصہ داری ادا کرسکیں گی۔
ان کے علاوہ کچھ علوم تو وہ ہیں جن کی ضرورت عورتوں کو پڑتی ہے مثلاً طب ومیڈیکل سائنس ایسے علوم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے لازمی تو نہیں لیکن مستحسن ہے اس لیے کہ عورتوں میں میڈیکل سائنس کی تعلیم ہونے سے عورتیں اپنے امراض کے لیے زیادہ ان سے رجوع ہوں گی اور یہ مردوں کے ذریعہ تشخیص کرانے سے ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔
بعض علوم ایسے ہیں جوعورتوں کے لیے زوائد کے درجہ میں ہیں، جیسے انجینئرنگ ، پولٹیکل سائنس وغیرہ ان علوم کی سماج کو ضرورت ہے، لیکن عورتوں کے ان علوم کے نہ پڑھنے سے سماج میں کوئی پریشانی نہیں پیدا ہوتی بلکہ مرد کا ان علوم کا پڑھنا اور سماجی ضروریات کی تکمیل کرنا کافی ہے۔
کس طرح پڑھایاجائے، کا جواب یہ ہے کہ ان کے مخصوص تعلیمی ادارے ہوں، جہاں مرد وعورت کے اختلاط کا کسی درجہ میں امکان نہ ہو، آمد ورفت میں پردہ کا معقول نظم ہو اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
آج سارا بگاڑ مخلوط تعلیم اور بے پردہ آمد ورفت کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے، عصری درسگاہوں میں پڑھنے والی لڑکیوں نے اپنا حجاب اتار پھینکا ہے، اور مغرب کی فیشن پرستی نے انھیں اتنا بے لگام کردیا ہے کہ ہر چیز میں انھیں مردوں کی نقالی کی عادت سی پڑ گئی ہے، وہ خاتون خانہ کے بجائے سبھا کی پری ہونے میں فخر محسوس کرتی ہیں، اکبرالٰہ آبادی نے اسی صوت حال کو سامنے رکھ کر کہا تھا:
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر خاتون خانہ ہوں، وہ سبھا کی پری نہ ہوں
آج جب کہ مدارس، اسکول اور جامعات کی بہتات ہے ، مسلمانوں کے ایسے کئی تعلیمی ادارے وجود میں آگئے ہیں، جن میں لڑکیوں کی تعلیم کا نظم اسلامی اصول کو سامنے رکھ کرکیا گیا ہے، اب لڑکیاں عالمہ، فاضلہ بھی بن رہی ہیں، اور عصری علوم میں دستر س بھی رکھ رہی ہیں۔
اس دور میں جبکہ ہر طرف لادینی ، مذہب بیزاری اور مادّیت کا غلبہ ہے، اور فضاوں میں یہ افکار اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ہر وقت فضائی آلودگی کی طرح ان سے دل ودماغ کے متاثر ہونے کا خطرہ رہتا ہے، تعلیم نسواں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان کی عفت وپاکدامنی کی حفاظت ہے۔
ایسے میں ہمیں تعلیم نسواں کے سارے نظام کو ازسر نو ترتیب دینا ہوگا جس سے لادینی اور اخلاقی انارکی پر بند باندھا جاسکے، ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی جس سے ان کے سماجی شعور میں بیداری پیدا ہو اور انھیں اسلامی خد وخال کے موافق تبدیلی قبول کرنے پر آمادہ کیاجاسکے۔ ان کے اندر خدا پرستی کا جذبہ پیدا ہو، اور مادّیت کے اس دور میں وہ خود بھی روحانی قدروں کو اپنائیں اوریہ صفت اگلی نسلوں تک منتقل کرسکیں۔ اگر ہم تعلیم نسواں کے میدان میں اپنے جدوجہد سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھئے کہ ہم نے آئندہ نسلوں تک دین کو اس کی اپنی اصلی شکل وصورت میں منتقل کرنے کا سامان کردیا۔ اور ایک بڑی ذمہ داری سے ہم عہدہ برآ ہوسکے۔