کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب سے متعلق فیصلہ سنایا ہے کورٹ نے کہا ہے کہ حجاب اسلام میں لازمی نہیں’ اسکولوں کی طئے کردہ یونیفارم پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ہے ہائی کورٹ نے مزید کہا ہے کہ حکومت کو حکمنامہ جاری کرنے کا حق حاصل ہے۔ حجاب سے متعلق تمام رٹ پٹیشن مسترد کردی گئیں ہیں۔
نئی دہلی۔ (پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی صدر ایم کے فیضی نے حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر سخت نوٹس لیتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نسل کشی مطالعے کے ماہرین ہندوستان میں نسل کشی کی پیش گوئیں کررہے ہیں، ایسے میں کسی خاص کمیونٹی کو ان کے حقوق سے انکار کرنے والے عدالتی فیصلوں کو بھی نسل کشی کی کوششوں کا حصہ سمجھا جانا چاہئے۔
کرناٹک میں حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ بالکل بھی انصاف اور آئینی نہیں ہے۔ ملک میں عدالتیں شہریوں کے آئینی حقوق کو یقینی بنانے اور ان کا تحفظ کرنے کی پابند ہیں اور جب بھی آئینی دفعات کے بارے میں کوئی ابہام پیدا ہوتا ہے تو وہ آئین کی دفعات کی تشریح کرتی ہیں۔ مذہبی ضابطوں اور قوانین کی تشریحات ہندوستانی عدالتوں کے دائرہ کار میں نہیں آتی ہیں۔
بدقسمتی سے حجاب کے بارے میں کرناٹک ہائی کورٹ کا آج کا فیصلہ اس تصور کی خلاف ورزی ہے۔ معزز عدالت کا یہ بیان "حجاب پہننا اسلامی عقیدے کا لازمی مذہبی عمل نہیں ہے”سنگین نتائج کا حامل ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ ایک ضروری مذہبی عمل ہے یا نہیں، پہننے کیالئے لباس کا انتخاب شہری کا بنیادی حق ہے۔
عدالت کا یہ بیان اس حق کی نفی ہے۔ Fiat justitia ruat caelum’جس کے معنی ہے انصاف کیا جائے چاہے آسمان گر جائے یہی انصاف فراہم کرنے کیلئے عدالتوں کا بنیادی اصول ہے۔ حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کور ٹ کا فیصلہ اس بنیادی اصول کی تضحیک کرتا نظر آتا ہے۔
ججوں کو اپنے ذاتی، سیاسی یا مذہبی عقائد سے پرے ہوکر آئینی اصولوں اور انصاف کی بنیاد پر فیصلے سنانا چاہئے۔ایسالگتا ہے کہ یہ اصول اس فیصلے کی بنیاد نہیں رہا ہے۔ اس سے صرف دائیں بازو کے ہندوتوا فاشسٹوں کو مذہبی پولرائریشن کرنے، نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور مسلمان لڑکیوں کو ان کی تعلیم جاری رکھنے سے روکنے کی کوششوں کو تیز کرنے میں مدد ملے گا۔
اگرچہ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا حجاب معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں ہونے والے اثرات کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہے، لیکن اسے اب بھی امید ہے اور سپریم کورٹ سے منصفانہ فیصلہ ملنے پر یقین رکھتی ہے۔