صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب کے سلسلہ میں دیئے گئے فیصلہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں ہے، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔
اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے، اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے، لیکن وہ گنہگار ہوکر اللہ کے عذاب اور جہنم کا مستحق ہوتا ہے ضرور ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ کہنا پردہ اسلام کا لازمی جز نہیں ہے شرعا غلط ہے۔
یہ لوگ ضروری کا مطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو آدمی اس کا حکم نہیں مانے گا، وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے، اگر واجب اور فرض ہے تو ضروری ہے اس کے نہ کرنے پر کل قیامت کے دن اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم اور ضروری نہیں ہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حد تک محدود ہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا، اس لئے ضابطہ کے مطابق کالج کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں ہے۔
رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25 اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستور میں اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔
بھارت کی حکومت کا اپنا کوئی سرکاری ریاستی مذہب نہیں ہے، لیکن یہ تمام شہریوں کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق کسی بھی مذہب پر چلیں اور عبادت کریں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اپنی مذہبی پہچان ظاہر نہ کرے ہاں یہ بات سیکولرازم میں ضرور داخل ہے کہ حکومت کسی خاص مذہب کی پہچان کو تمام شہریوں پر مسلط نہ کرے۔ حجاب ایک مذہبی فریضہ ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت ہے وہی ہمارا فطری اور عقلی تقاضہ بھی ہے۔