یوپی الیکشن: ہندو راشٹر کی طرف بڑھتے قدم
حالات حاضرہ

یوپی الیکشن: ہندو راشٹر کی طرف بڑھتے قدم

کیا لکھیں! کیا کہیں! ہندو راشٹر کا خواب پورا ہورہا ہے۔ بی جے پی نے فائنل میں رسائی حاصل کرلی۔ اور فائنل میں مقابلہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ہندوستان اور زمبابوے کی ٹیموں کے درمیان ہوتا ہے۔ کسانوں کا ایک سالہ احتجاج، کسان لیڈر راکیش ٹیکٹ کی بی جے پی حکومت کو سبق سکھانے کا عزم، کرونا کے شکار افراد کی گنگا میں تیرتی نعشیں، یوپی کے عوام کی اکثریت کی ذہنیت بدلنے میں ناکام رہی۔ کیوں کہ اکثریت کو ہندو راشٹر اور ایودھیا میں رام مندر کی آس جب تک مودی اور یوگی اقتدار میں ہیں‘ ان کی آس باقی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ کس طرح نوٹ بندی سے ہر فرد کو ہونے والی تکلیف کے باوجود اکثریت نے بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ لاکھوں کروڑ روپئے ارباب اقتدار کے قریبی حلقے نے غائب کرچکے ہیں۔

ہر سرکاری املا ک و ادارے کو مٹھی بھر ارب پتی صنعت کاروں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ اکثریتی طبقہ کو اس کی فکر نہیں ہے کیوں کہ ان کے لئے آستھا سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ویسے بھی ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے آستھا اتنی ہی اہم ہے۔ ایک بار پھر اُترپردیش، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا کے فاشسٹ ذہنوں نے اپنے ذات پات، علاقائی اور لسانی اختلافات کو ایک دن کے لئے بالائے طاق رکھتے ہوئے متحدہ طور پر بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا۔ یقین ہے کہ 2024ء میں یہ تاریخ پارلیمانی الیکشن میں دوہرائی جائے گی۔

جہاں تک اترپردیش کا تعلق ہے‘ اگر سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد کا تقابل کیا جائے تو مقابلہ یکطرفہ تھا۔ حالانکہ اکھلیش یادو کی ریالیاں کامیاب تھیں۔ ہزاروں کی بھیڑ نظر آتی تھیں۔ شاید خود بی جے پی کی بھیڑ اکھلیش یادو کے جلسوں اور ریالوں میں بھیجتی تاکہ اکھیلیش اوور کانفڈنس کا شکار ہوجائے۔ دوسری طرف بی ایس پی نے سب سے اہم رول نبھایا۔ مایاوتی کے بارے میں پہلے بھی کہا جاتا تھا کہ پہلے وہ اپنی نشستوں کو فروخت کیا کرتی تھیں‘ اس بار انہوں نے پوری ریاست کو بی جے پی کے حوالے کردیا ہے۔ بہوجن سماج سے متعلق جو رائے تھی کہ ان کی ووٹ تقسیم نہیں ہوتے۔ یقینا اس بار بھی بہوجن سماج کے ووٹ تقسیم نہیں ہوئے بلکہ وہ بی جے پی میں ضم ہوگئے۔ آنے والے برسوں میں شاید بی ایس پی کا وجود بھی باقی نہ رہے گا۔

اترپردیش کے سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے گواہ کو جنوری میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ لاکھ کسی بھی سیاسی جماعت کی لہر ہو‘ حکومت بی جے پی کی ہوگی اور اگر معلق اسمبلی ہو تو بی ا یس پی بی جے پی کا ساتھ دے گی۔ اس مرتبہ سماج وادی پارٹی نے جن امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا بی ایس پی نے انہیں ٹکٹ دیا اور سماج وادی پارٹی کا کھیل بگاڑا۔

اترپردیش میں کسان احتجاج کے بعد اتنا تو یقین تھا کہ کچھ نہ کچھ فرق آئے گا۔ بی جے پی کی چند سیٹیں کم ضرور ہوں گی مگر اس کا اقتدار برقرار ہے‘ حیرت کی بات ہے کہ لکھیم پورکھیری کے تمام آٹھ نشستوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ حالانکہ یہاں کسانوں پر بی جے پی وزیر کے بیٹے نے کار دوڑادی تھی جس میں کئی کسان ہلاک ہوگئے تھے۔ بی جے پی حکومت نے زرعی اصلاحات قانون واپس لیا تو اس کا اچھا اثر ہوا اور جو کسان بی جے پی حکومت کے خلاف تھے وہ پچھلے انتخابات میں بھی بی جے پی کے ساتھ تھے اور پھر روٹھنے والوں کو منایا لیا گیا۔ اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔

اُناؤ ریپ کیس کا بھی بی جے پی پر کوئی اثر نہیں ہوااس کا ثبوت یہ ہیکہ متاثرہ لڑکی کی ماں نے مقابلہ کیا تو اسے شاید ہی کچھ ووٹ ملے ہوں گے ویسے راجستھان کے وزیر نے تو تازہ تازہ بیان دیا ہے کہ جن ریاستیں مردوں کی ہیں وہاں ریپ کسان ہوتے ہیں۔
مغربی اُترپردیش میں بھی بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔دوسری طرف اکھیلیش یادو کو بھی 2017ء کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل ہوئی۔ 2017ء میں انہیں 47نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ 2022ء میں انہوں نے تین گنا زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ البتہ جن پارٹیوں کے ساتھ اس کا اتحاد ہوا تھا اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔

الیکشن 2022ء میں مسلم ارکان کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا۔ شکر ہے کہ اعظم خان اور ان کے فرزند جیت گئے۔ مگر ان کی پریشانیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یوگی کو بہت سارے حساب چکتے کرنے ہیں۔ویسے اس مرتبہ اترپردیش سے مسلم امیدوار جو تقریباً سماج وادی ہی کے ہیں‘ گزشتہ انتخابات کے مقابلہ میں زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔37تا 40امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے۔ ان میں سے کئی ایسی نشستیں ہیں جن پر 2017ء کے الیکشن میں مسلم ناکام ہوئے تھے۔ دوبارہ ان کی کامیابی خوش آئند ہے۔ دیوبند جیسے مسلم اکثریتی علاقہ سے مسلم امیدوار کی شکست افسوسناک ہے۔

پانچ ریاستوں میں سے چار ریاستوں میں بی جے پی کو اقتدار پر آنے کی اتنی خوشی ہوگی جتنی اترپردیش کی شاندار کامیابی پر ہوگی کیوں کہ یہ ہندوستان کا دل سمجھا جاتا ہے۔ البتہ یوگی 2024ء کے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے ایک طاقتور امیدوار کے طور پر مودی کے لئے چیالنج ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان دو میں پہلے ہی سے سرد جنگ ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مودی کو قومی سیاست میں آنے سے روکنے کے لئے انہیں اترپردیش کا چیف منسٹر بنادیا گیا تھا۔ کیوں کہ مودی اگر قومی سطح پر اکثریتی طبقہ میں مقبول ہیں تو یوگی کی اپنی علیحدہ پہچان ہے۔ ان کی اپنی جماعت بھی ہے‘ جو کسی بھی وقت بی جے پی کو للکار سکتی ہے۔ اور بی جے پی یہی نہیں چاہتی۔

الیکشن 2022 سے پہلے بی جے پی نے مسلم طبقہ کو بھی اپنی طرف مائل کرنے کا ذہن بنایا تھا تاہم جب زرعی قوانین واپس لینے کے بعد کسان طبقہ کی ناراضگی بڑی حد تک کم ہوگئی تو انہوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ کیوں کہ ان کا یہ خیال ہے کہ اگر مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اکثریتی طبقہ دور ہوجائے گا۔ مسلم مخالفت اور دشمنی کے لئے بی جے پی کے پاس پہلے ہی سے کئی اچھے موضوعات معہ ثبوت کے موجود ہیں۔ جیسے طلاق ثلاثہ، رام مندر کا سنگ بنیاد، بابری مسجد سے متعلق فیصلہ، این آر سی، سی اے اے وغیرہ وغیرہ۔

2024ء تک یہ مسائل چھیڑے جاتے رہیں گے‘ مسلمانوں ستائے جاتے رہیں گے۔ ماب لنچنگ، حملے، عبادت گاہوں کی تقدس کی پامالی، فرضی الزامات کے تحت گرفتاریاں او رجانے کیا کیا ہوگا۔ ہر طرف سے مارکھانے کے باوجود ہندوستانی مسلمان اب بھی خواب غفلت سے نہیں جاگا۔ اب بھی وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھویا ہوا ہے۔ اب بھی اس کے ذہن میں یہی بات ہے کہ ہم نے اس ملک میں ایک ہزار سال حکمرانی ہے۔

وہ دورِ غلامی میں ہے۔ اُسے یاد نہیں۔ حالات پر تبصرے، الزام تراشیاں، مسلکی جھگڑے، بس اسی میں اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ ہندوستانی مسلمان۔ دوسری قومیں خواب غفلت سے بیدار ہوئیں۔ تعصب، امتیاز کو بھلاکر ایک واحد مقصد کی طرف رواں دواں ہیں۔ اور وہ مقصد کیا ہیں آپ ہم سب جانتے ہیں۔اپنے مفادات کے لئے ہم ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مخبری کرتے ہیں۔ الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یوپی میں بی جے پی کا اقتدار یقینی تھا۔ اس میں کس نے کیا رول ادا کیا‘ اس پر بحث بیکار ہے۔

اترپردیش کے ممتاز صحافی سعید ہاشمی کے مطابق یوپی الیکشن میں بیرسٹر اسد اویسی کی زیر قیادت مجلس اتحادالمسلمین نے پہلے ایک سو اور پھر بعد میں تمام 403نشستوں پر مقابلہ کا اعلان کیا یقینا اس میں سیاسی محاذ کے ساتھ ان کا اتحاد تھا۔ جس طرح سے میڈیا انہیں اہمیت دیتا رہا، جس طرح سے ان کی ریالیوں اور جلسوں میں بھیڑ امڈ رہی تھی اس سے اندازہ کیا جارہا تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ تو کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر ان کا کھاتا نہیں کھلا۔ اس کے کئی وجوہات ہیں۔

انہوں نے بعض قدیم کارکنوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اس کے علاوہ اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلائے ہیں۔ مجلس اگر کوئی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی اس پر حیرت کی بات نہیں‘ کیوں کہ کانگریس جیسی قومی جماعت نے صرف دو، بی ایس پی نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی جن کی اپنی پہلے ہی سے مضبوط بنیادیں تھیں۔ اس کے علاوہ آر ایل ڈی کا وجود بھی نظر نہیں آیا۔

البتہ بیرسٹر اسداویسی کو مستقبل میں تلنگانہ کے باہر اگر انتخابات میں حصہ لینا ہے تو انہیں پہلے مقامی عوام کو اپنے اعتماد میں لینا چاہئے۔ ان کی صلاحیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ بلاشبہ وہ بہترین مقرر، اچھے سیاستدان اور بے باک‘ مخلص و مسلمانوں کے ترجمان ہیں۔ مگر بعض فیصلے مشوروں کے ذریعہ کئے جانے چاہئے۔ اسلام ایسی ہی تعلیم دیتا ہے۔

اترکھنڈ، گوا، منی پور کے انتخابی نتائج توقعات کے مطابق ہیں۔ جہاں تک پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے تو اس میں کوئی خوش ہونے والی بات نہیں ہے۔ ممتاز صحیفہ نگار سمیع اللہ خان کی بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ کجریوال آر ایس ایس کے پٹھو ہیں۔ پنجاب سے کانگریس کے صفائے کے لئے کجریوال کا استعمال کیا گیا۔ اور کانگریس کی تباہی و بربادی میں سدھو نے اپنی حماقتوں سے اور کیپٹن امریندر سنگھ نے اپنی خود غرضی سے منفی رول ادا کی۔ اچھا ہی ہوا کہ پنجاب کے عوام نے انہیں سبق سکھادیا۔

سدھو کی قابلیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اپنی پارٹی کے سینئر لیڈر کے ساتھ ان کا رویہ علی الاعلان بیانات، تقاریر، بغاوت نے ان کی قد کو گھٹادیا۔ اسی طرح کیپٹن امریندر سنگھ نے اپنی سیاسی خود غرضی کے لئے 40سالہ وفاداری کا دامن چھوڑ دیا۔

عام آدمی پارٹی کے بھگونت سنگھ مان اسٹینڈ اَپ کامیڈی سے چیف منسٹر کے عہدہ تک پہنچے ہیں۔ عوام میں ان کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ کیوں کہ الیکشن کے نتائج سے پہلے ہی کیجریوال نے ”جنتا چنے گی اپنا سی ایم“ کا اہتمام کرتے ہوئے پنجاب کے عوام کو سی ایم کے عہدہ کے لئے کسی امیدوار کا نام تجویز کرنے کے لئے کہا تھا۔ 15لاکھ افراد میں سے 93فیصد نے ایس ایم ایس یا آن لائن ووٹنگ کے ذریعہ بھگونت سنگھ مان کو منتخب کیا۔ اپنی شراب نوشی کے لئے بدنام بھگونت سنگھ مان نے اس وعدے کے ساتھ کرسی سنبھالی کہ وہ شراب نوشی ترک کرچکے ہیں۔

انہوں نے سب کے لئے کام کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ عام آدمی پارٹی کی کامیابی سے کجریوال اس قدر مسرور ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریب میں مستقبل کے کچھ ایسے عزائم کا اظہار کیا کہ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مستقبل میں خود کو ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کجریوال اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اچھی سمجھ بوچھ ہیں۔ اچھے اڈمنسٹریٹر ہیں۔ وہ اس لحاظ سے کامیابی سیاست دان ہیں کہ سڑک اور فٹ پاتھ کے احتجاج سے وہ دہلی کے ایوان اقتدار تک جن جن کے سہارے پہنچے سب سے پہلے ان کو اپنے راستے سے ہٹایا۔ یہ کامیاب سیاستدان کی پہچان ہیں۔ بے چارے اَناہزارے کبھی کبھار سوشیل میڈیا پر نظر آتے ہیں اور ان کے چاہنے والے لکھتے ہیں کہ یہ 6سال سے کورنٹائن میں ہیں۔

پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے 92امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے مالیرکوٹلہ حلقہ سے عام آدمی پارٹی ہی کے ڈاکٹر جمیل الرحمن کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے نمک کا یہ کنکر پنجاب کے مسلمانوں کی کس حد تک نمائندگی کرسکتا ہے۔