امام ابن قتیبہ نے اپنی مشہور کتاب *عیون الأخبار* میں ایک واقعہ بیان کیا ہے،
مسلم افواج کے سپہ سالار حضرت مسلمہؒ نے ایک قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا، چالیس روز گزر گئے مگر قلعہ ناقابلِ تسخیر بنا رہا، غور و خوض کے بعد انہوں نے ایک سرنگ کے راستے سے شہر میں داخل ہونے اور صدر دروازے کھولنے کی پلاننگ کی، کام بڑے جوکِھم کا تھا، اس لئے کسی کو مجبور کرنے کے بجاۓ انہوں نے رضا کارانہ طور پر کسی کو بھی اپنا نام پیش کردینے کی ہدایت کی، مگر فوج میں سے کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔
شام ڈھلے ایک سپاہی آگے آیا، اس نے اپنا چہرہ جنگی خود میں چھپا رکھا تھا، وہ جان کی بازی لگا کر سرنگ کے راستے قلعے میں داخل ہوا اور مسلمانوں کے لئے صدر دروازہ کھول دیا، اللہ تعالیٰ نے اس طرح مسلمانوں کو فتح سے نوازا،،،
فتح کے بعد حضرت مسلمہ نے عام منادی کرائی کہ سرنگ میں داخل ہونے والا سپاہی سامنے آئے، تاکہ علانیہ اس کے ساتھ اعزاز واکرام کا معاملہ کیا جاسکے، مگر کوئی نہیں آیا، تین دن تک مسلسل اعلان کیا جاتا رہا، مگر نتیجہ وہی رہا، تھک کر انہوں نے اعلان کرایا کہ میں نے اپنے خادمِ خاص کو اجازت دے دی ہے کہ سرنگ میں داخل ہونے والا مجاہد جس وقت بھی چاہے مجھ سے ملنے آجائے، وہ براہِ راست میرے پاس آسکتا ہے، اسے روکا نہیں جائے گا اور میں قسم دے کر اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے ایک بار ضرور آکر ملے،،۔
اس منادی کے بعد رات کے آخری پہر میں ایک شخص آیا اور خادم سے حضرت مسلمہ کے پاس لے چلنے کی درخواست کی، حاضرین و خدام نے پوچھا کہ کیا تم ہی سرنگ والے سپاہی ہو۔۔۔۔؟
اس نے کہا: "میں وہ نہیں ہوں، لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔” خادموں نے جاکر یہ بات حضرت مسلمہ کو بتائی تو وہ فی الفور ملنے کے لئے رضامند ہوگئے، ملاقات ہوئی تو اس آدمی نے کہا: "سرنگ والے سپاہی نے آپ سے ملنے کی تین شرطیں رکھی ہیں۔
ایک یہ کہ اس کا نام خلیفۃ المسلمین کے سامنے ذکر نہ کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ اسے کسی قسم کا انعام نہ دیا جائے۔
تیسرے یہ کہ اس سے پوچھا نہ جائے کہ وہ کون ہے، کس قبیلے سے ہے اور کہاں اس کا گھر ہے،”
حضرت مسلمہ نے تینوں شرطیں مان لیں تو اس آدمی نے کہا: *”سرنگ والا سپاہی میں ہوں۔”* اور چلا گیا،،
راوی کہتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے حضرت مسلمہ کا معمول تھا کہ اکیلے نماز پڑھتے یا جماعت کی امامت کرتے، وہ نماز کے بعد باآواز بلند یہ دعا ضرور مانگتے تھے کہ "ائے اللہ، میرا حشر، اُس سرنگ والے سپاہی کے ساتھ فرما، ائے اللہ اپنے گمنام بندے کو اپنی بہشت میں جگہ دے کر اُس کا شایان شان اکرام فرما۔”
*میں جب بھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں، عجیب کیفیت دل پر طاری ہوجاتی ہے، کیا آج ہماری صفوں میں کچھ ویسے ہی سرنگ والے دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔۔؟*
*کیا ہماری تحریکوں اور جماعتوں میں کچھ سرنگ والے موجود ہیں….؟*
*کیا ہمارے اداروں میں کچھ سرنگ والے موجود ہیں…..؟*
*دوسروں کو چھوڑئے، کیا ہم خود سرنگ والے ہیں یا اس جیسا بننے کا حوصلہ اور عزم رکھتے ہیں۔۔؟*