انسانی تہذیب وتمدن میں خواتین کا کردار
حالات حاضرہ

انسانی تہذیب وتمدن میں خواتین کا کردار

مرد جب مردانیت میں اپنی حدود پھلانگتا چلاجائے اور عورت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر اسے ظلم و تعدی کا شکار بنادے، اسے اس کے حقوق سے محروم کرتے ہوئے اس کے ساتھ ناجائز رویہ روا رکھے، اس کے ساتھ وہ سلوک کرے کہ جس کی اجازت اسے کسی نے نہ دی ہو، مذہب، معاشرت، قانون اور اخلاقیات سب کی دھجیاں بکھیر دی جائیں اور عورت کو اپنی دست درازیوں کا نشانہ بنایا جانے لگے، اور پھر کوئی اس مرد کا ہاتھ روکنے والا بھی نہ ہو اور نہ ہی کوئی چوکھٹ عورت کی آہ و بکا کی شنوائی کے لیے مہیا ہوتو ایسے میں عورت کی حیثیت اور جانور کی حیثیت کی بھلا کیا فرق رہ جائے گا؟

قدرت نے دونوں کے درمیان خوبصورت توازن برقرار رکھا ہے،طاقت ایک کو دی ہے توحسن وکشش دوسرے کو دے دی ہے،ایک کی گود میں اولاد رکھی ہے تو دوسرے کے ہاتھ میں رزق کی باگ دوڑ تھمادی ہے،ایک کوچاہنے کی خواہش دی ہے تو دوسرے کو چاہت کی مرکزیت عطا کر دی ہے اوردونوں کے درمیان ایسی کشش رکھی ہے کہ جدا ہوتے ہوئے بھی باہم ایک ہی ہوتے ہیں اگرچہ ان کے درمیان کوسوں دور کے فاصلے ہی کیوں نہ حائل ہو جائیں۔قدرت کا یہ عطا کردہ توازن جب تک معاشرے میں حقوق و فرائض کی ادائیگی صور ت میں موجود رہتا ہے انسانی معاشرہ بگاڑ سے محفوظ رہتا ہے مگر جہاں جہاں اس توازن کو چھیڑ دیا جائے وہاں انسانی معاشرہ بھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔

دنیا کے کتنے ہی معاشرے ہیں جہاں عورت کو اس کے اصل مقام سے ہی نہیں بلکہ اسے مقام انسانیت سے بھی نیچے گرا دیا جاتا ہے۔اسکے مقابلے میں جانور کی زیادہ قدر کی جاتی ہے بلکہ بعض مذاہب میں تو جانوروں کی پوجا تک کی جاتی ہے جبکہ عورت کو جنس بازار سے بھی کم تر اہمیت دی جاتی ہے۔ہندومعاشرہ اسکی سب سے بہترین مثال ہے جہاں عورت کو جہیز کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ سیرت و صورت ،تعلیم و تربیت، سلیقہ و طریقہ اور اخلاق و برباری جونسوانیت کے تاریخی وحقیقی جوہر ہیں جن کا وزن عورت کی نسوانیت میں بڑھوتری کا باعث ہوتا ہے ان سب کی بجائے ہندومت میں عورت کو اس کے لائے ہوئے جہیزمیں تولا جاتا ہے، اگر جہیز زیادہ ہو تو عورت قیمتی ہے بصورت دیگر عورت کی قبولیت کے امکانات کم سے کم تر ہیں۔ہندووں کے ساتھ صدیوں تک رہتے ہوئے مسلمانوں کے ہاں بھی ہندووں کے رسوم و رواج جاری رہنے لگے۔

اگرچہ دوقومی نظریہ اسی تاثر سے ارتقاء پزیر ہوا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ اقوام ہیں لیکن آزادی کے بعد بھی بہت سی ہندوانہ رسمیں مسلمانوں کے معاشروں میں جگہ پاتی گئیں اور اب رہی سہی کسر اس ثقافت نے پوری کردی ہے جو فلموں کے ذریعے آئی۔ چنانچہ مسلمانوں کے ہاں بھی جہیز ضروری سمجھا جانے لگا اور شادی کی بے پناہ رسومات اور کثرت سے تحائف کے لین دین نے شادی کو جہاں مشکل تر بنا دیاوہاں لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جانے لگا جو یقیناَ ہندومت کے رسوم کا منطقی نتیجہ تھا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نسوانیت کے بغیر انسانیت کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔انسان ایک عورت کے پیٹ میں ہی اپنے آغازکی ابتدا کرتا ہے اس کی گود میں پرورش پاتاہے اس کے سینے سے سیراب ہوتا ہے اوراسی ماں کی لوریاں اسکی تعلیم کا پہلا سبق ہوتی ہیں وہی اسکی پہلی استاد ہوتی ہے اور نہ جانے قدرت والے نے اور کتنے ہی کردار اس ماں کی ذات میں جمع کر رکھے ہیں۔ نسوانیت سے مستعار ماں کا یہ مقام اتنا بڑا منصب ہے کہ جنت جیسی جگہ بھی اسکے قدموں کے تلے آن ٹہرتی ہے۔اللہ تعالی نے اپنے اقتدار کے لیے،اپنے خزانوں کے لیے،اپنی طاقت کے لیے یا اپنے غضب کے لیے کوئی مثال پیش نہیں کی ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت کے لیے ماں کی محبت کو مستعار لیا کہ ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرنے والا۔

جنت سے بڑھ کر کوئی خوبصورت اور دلنشین مقام اس کائنات میں نہیں ہے۔اللہ تعالی نے جب حضرت باباآدم علیہ السلام کو اس مقام پر جگہ عطا کی توانہوں نے بارالہی میں تنہائی کی شکایت کی جس کے بعد انہیں ایک خاتون، اماں حوا کی معیت عطا کی گئی،گویا جنت جیسی جگہ پر بھی بغیر عورت کے انسان کا دل نہ لگا۔یہ نظام قدرت ہے کہ مرد عورت کے بغیر اور عورت مرد کے بغیر نامکمل ہے۔ دونوں کے اختلاط سے ہی جہاں نسل انسانی کی بقا ممکن ہے وہاں تہذیب و تمدن کے ارتقاءکے کیے بھی دونوں کا اشتراک کار بے حد ضروری ہے گویا کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔

ہمیشہ کی طرح آج کی پورپی تہذیب کے انسانی عالی دماغوں نے بھی عورت کے مسائل کا حل تلاش کیا اور پیش بھی کیا۔کم و بیش تین سو سالوں سے یورپی تہذیب نے عورت کو حقوق نسواں کے نام سے ایک آزادی دے رکھی ہے تاکہ اسکے مسائل حل ہو جائیں،لیکن یہ آزادی بھی چونکہ ”مردوں“نے ہی دی ہے اس لیے اسکی حقیقت بھی اس سے زیادہ نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔ عورت کو سرمیدان لا کر اسکی ذمہ داریوں میں کمی تو نہیں کی گئی لیکن معاش کا ایک اور بوجھ بھی اسکے کندھوں پر ضرور ڈال دیا گیا ہے۔پہلے وہ صرف شوہر کی دست نگر تھی تو اب اسے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنے باس اور اپنے رفقائے کار کا بھی”دل لبھانا“پڑتا ہے۔اس نام نہاد جدید لیکن غیرفطری تہذیب نے عورت کی فطری ذمہ داریاں جو اسکی گود ،اسکی اولاد،اسکا خاندان اور اسکے گھر سے عبارت تھیں انکی بجائے عورت کو سیاست، دفاع، معاش اور انتظامی امور کی طرف دھکیلنے کی بھونڈی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام اور اخلاقی معیارات اپنے تنزل کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔

اس غیر فطری سلوک کا نتیجہ ہے کہ عورت سے اسکانسوانی حسن چھن گیا ہے، لفظ ”عورت “جس کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے اسکو عریاں سے عریاں تر کیا جا رہاہے۔عورت کی اس غیرفطری آزادی سے نسلیں مشکوک ہوتی چلی جا رہی ہیں اور یورپ کے مفکرین اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ انکے معاشرے سے آہستہ آہستہ باپ آشنا بچے اور باپ ناآشنا بچوں کا فرق مٹتاچلا رہا ہے۔

عورت کی آزادی کا منطقی نتیجہ معاشرے کی وہ آشنائیاں ہیں جو صدیوں کے قائم کیے ہوئے تاریخی انسانی اخلاقی اقدار کو داغدار کرتی چلی جا رہی ہیں اور پھر کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ اس غیرفطری آزادی نے جو یورپ نے عورت کو تھوک کے حساب سے فراہم کر دی ہے تقدیس کا دامن بھی کس کس طرح تار تار کر دیا ہے؟اور مقدس رشتوں کے درمیان بھی حوس نفس کس طرح در آئی ہے۔اور پھر کیا اس طرح اس معاشرے کو آسودگی حاصل ہو گئی ہے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم جنسیت اور جانوروں تک سے تعلقات استوار کرنے والے اب اس دلدل میں اندر سے اندر دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

عورت کی اس آزادی کے خلاف اگر چہ ہمیشہ سے ایک دبی دبی آوازاٹھتی رہی ہے لیکن اب تو عورتوں ہی کی کتنی نجی تنظیمیں خود یورپ کے اندر قائم ہو چکیں ہیں جن کے مطالبات میں سے سرفہرست یہی ہے انہیں انکی فطری ذمہ داریاں لوٹا دی جائیں اور دنیا کے کاروبارمعیشیت وسیاست وغیرہ سے انہیں سبکدوش کر دیا جائے،حال ہی میں جاپان میں عالمی مقابلہ حسن کے موقع پر جن خواتین نے اپنے فطری حقوق کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا اسکی قیادت کرنے والی ہالی وڈ جیسے عالمی شہرت یافتہ فلمی ادارے کی سابق ہیروئن تھی۔

اللہ تعالی خالق نسوانیت ہے اور خاتم النبیینﷺ محسن نسوانیت ہیں اور اللہ تعالی کے بھیجے ہوے دین سے بڑھ کر کوئی نظام انسانوں کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔اسلام نے فرائض کے مقام پر معاشرے کے سب طبقوں کو جمع کیا، یورپی تہذیب نے حقوق کے نام پر سب طبقوں کو باہم لڑا دیا ہے۔ایشیا کے پرامن مشرقی روایات کے حامل معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے نام پر جنس متضاد کے درمیان ایک غیراعلانیہ جنگ اس معاشرے کو تباہ کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔

عورتوں کے مسائل سمیت کل انسانوں کے کل مسائل کاحل صرف دین اخروی کے اندر ہی پنہاں ہے اور خطبہ حجة الوداع سے بڑھ کر اور کوئی دستاویزانسانوں کے حقوق کی علمبردار نہیں ہو سکتی۔عالم انسانیت کوآسودگی ،راحت ،امن و آشتی،پیارومحبت اورحقوق وفرائض کے درمیان توازن کے لیے بالآخر اسی چشمہ فیض کی طرف ہی پلٹنا ہوگاجوانبیاءعلیھم السلام کی دعوت کا خلاصہ اور اللہ تعالی کا اس دنیا میں آخری پیغام ہے۔