نماز کی ادائیگی سے قبل موذنین نماز کی جو دعوت یعنی اذان دیتے ہیں، وہ اسلام کا عظیم الشان عمل ہے۔ موذنین بندوں کو اللہ کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں۔جیسے سفرِ معراج میں حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کودعوت پہنچائی تھا، اسی طرح موذنین بھی حضرت جبریل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں اذان اور موذنین کی بڑی اہمیت ہے۔
حیدرآباد۔5،مارچ (پریس نوٹ) اللہ رب العزت نے اس دنیا کے نظام کو تعلقات کے بنا پر وضع کیا ہے۔ انسانوں کے درمیان آپسی تعلقات، رشتہ داریاں اور دوستیاں اللہ کی خاص نعمت ہے۔ اللہ نے ان کی پاسداری یعنی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔
صلہ رحمی اللہ کی ایک خاص صفت ہے۔ ہر انسان کے وجود کا باعث اس کے والدین ہیں۔ انسانوں کے درمیان آپس میں بھائی بہن، شوہر بیوی، پڑوس دوست، استاد و شاگرد اور کئی طرح کے تعلقات ہیں۔ اسی لیے ان کے ادب اور احترام کی ترغیب دی گئی ہے۔ جب اللہ نے ان تعلقات کو بہتر طور پر نبھانے کا حکم دیا ہے تو بندوں کو بھی چاہیے کہ وہ رب العالمین سے بہتر تعلق رکھے۔ اللہ اور بندے کے درمیان رشتہ مستقل ہوتا ہے۔ اس تعلق کی یاد دہانی اور اس کے ہمیشہ احساس کا نام معراج ہے۔
سفر معراج سے قبل پیغمبر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دس سال سے مکہ والوں کا ظلم سہہ رہے تھے۔ طائف کے سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا، جس کے وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت بار گزرا۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔ یوں طویل آہ وزاری کے بعد معراج کا سفر کرایا گیا۔
ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی نے شاہی مسجد باغِ عامہ میں خطبۂ جمعہ کے دوران کیا ہے۔
مولانا حافظ احسن نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ انسانوں کے درمیان آپسی محبت اللہ رب العزت نے پیدا کی ہے۔ اسی لیے تمام محبتوں اور تعلقات کا مرکز اللہ رب العزت ہے۔ پیغمبر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کے معیت کے لمحات میں بھی اپنی امت اور اس کے ہر فرد کو یاد رکھا۔
حضور نے اس مبارک موقع پر بھی اپنی امت کے لیے رب سے خاص تحفے کو طلب کیا، تاکہ امت کا ہر فرد اپنے رب سے براہ راست تعلق بنائے رکھے۔ معراج النبی صلی اللہ وسلم کا یہ خاص تحفہ نماز ہے۔ حضور کو لامکان میں رب کے ملاقات کے دوران جو لذتِ تکلم حاصل ہوئی۔ اس کا ایک حصہ اللہ نے حضور کی امت کو نماز اور سجدوں کی شکل میں عطا کیا ہے۔ اسی لیے حضور نے فرمایا کہ نماز مومنین کی معراج ہے۔
مولانا احسن نے فرمایا کہ نماز کی ادائیگی سے قبل موذنین نماز کی جو دعوت یعنی اذان دیتے ہیں، وہ اسلام کا عظیم الشان عمل ہے۔ موذنین بندوں کو اللہ کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں۔جیسے سفرِ معراج میں حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کودعوت پہنچائی تھا، اسی طرح موذنین بھی حضرت جبریل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں اذان اور موذنین کی بڑی اہمیت ہے۔
اس کے برعکس مسلم معاشرہ میں موذنین کو کمتر سمجھا جارہا ہے۔ ان سے لاکھ کام لیے جاتے ہیں۔ مساجد میں ان کو طعنے دیئے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ کوئی رضائے الہی کی خاطر مسلسل سات سال اذان دیتا ہے، تو اللہ رب العزت اس کی مغفرت کردیتے ہیں۔ مولانا نے اپنے والد کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب کام کو چھوڑ کو نماز کو جایا جائے اور اپنے بڑوں یا والدین کی بات مانے جائے تو یہ اطاعت ہوگی اور اگر کام کو ختم کرنے کے بعد یہ بات مانی جائے تو وہ اپنی مرضی ہوگی۔ وضو اپنے رب سے ملاقات کے لیے تیاری ہے۔
بندۂ مومن جب نماز کے لیے بارگاہ الہی میں کھڑا ہوتا ہے تو تین بڑی چیزیں اسے عطا کی جاتی ہیں۔ نماز کے قدم سے لے کر آسمان تک فرشتے قطار بناکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اللہ اس بندے پر آسمان سے رحمت کی بارش برساتے ہیں۔ نمازی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہے اور وہ اپنے رب سے ہمکلامی کررہا ہے۔ یوں بھی فرمایا گیا کہ قیام کے دوران قرات کرتے وقت یہ تصور کریں کہ ہم رب ِ کائنات سے گفتگو کررہے ہیں۔
خود حدیث قدسی بھی ہے کہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز مجھ سے ہم کلامی کے برابر ہے۔جب بندہ رکوع میں جاکر سبحان رب العظیم کہتا ہے تو رب کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ جب رکوع سے کھڑے ہوتے وقت سمیع اللہ لمن حمیدہ کہتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے رب نے سن لیا ہے۔ سجدہ میں جاتے وقت یہ تسلی حاصل ہوتی ہے کہ ہمارا سر رب ِ کائنات کی بارہ گاہ میں بندگی کے اظہار کے ساتھ خم ہے، یہ رب کے قدموں پر سجدہ ہے۔ جب قاعدہ میں ہوتے ہیں تو التحیات میں اس کا اقرار کیا جاتا ہے کہ مالک میری تمام بدنی و مالی عبادتیں خالص تیرے لیے ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی و رحمت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس موقع پر بھی حضور کی جانب سے امت کی سلامتی و رحمت کی دعا ہے۔ یہ گفتگو راست رب تعالی سے ہونے والی گفتگو ہے۔
مولانا احسن نے مزید فرمایا کہ عظیم الشان رکن اسلام نماز کے ساتھ امت کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کا قول نقل کرتے بتایا کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے ہیں تو اس سے ساتھ کر اس کی نمازوں کو دیکھا جائے۔ نماز بہتر تعلقات کے لیے اعلی درجے کا معیار ہے۔ اگر کوئی اپنے رب کے ساتھ وفاداری نہیں کررہا ہے اور رب سے بے وفائی کررہا ہے تو اس سے کیا امید ہے کہ وہ انسانوں سے وفاداری کرے۔انسان کا وقار، اعتبار اور معیار اس کی نماز ہے۔
حضور صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی اہم معاملہ، کوئی مصیبت آئے یا کسی تذبذب میں مبتلا ہوں تو فوری نماز کے ذریعہ اللہ رب العزت سے متوجہ ہوا جائے۔نماز انسان کے منفی خیالات کو ختم کرکے اس کے اندر پاکیزہ جذبات اور مثبت خیالات تخلیق کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ بار بار گناہ کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن اس کا اصل مطلب کیا ہے؟ نہ کیے جانے والے کاموں کو کرنے کی وجہ سے انسان کو ایک طرح سے بارِ گراں کا احساس ہوتا ہے۔ جو کہ انسان کی پوری شخصیت جو متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں رب کی بارگاہ میں حاضری سے گناہ سے پاکی اور نئی تازگی کا احسا س ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ نے مثال سے سمجھایا تھا کہ ایک شخص کے گھر کے راستہ میں پانچ نہریں ہو اور وہ ان پانچوں میں غسل کرتا رہے تو کیا اس کی جسم پر میل باقی رہے گا؟ اسی طرح پانچوں نمازوں کا بھی حال ہے۔لاک ڈوان کے بعد سے مساجد میں نمازیوں کی تعدا د میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایمان کے لیے خطرناک صورت حال ہے۔ ایک نابینا صحابی نے دربار نبوت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ میں نابینا ہوں مسجد آنے سے مشکلات پیش آتی ہے۔ جب کہ حضور نے ان سے کہا کہ آپ کے گھر میں اذان کی آواز آئے تو مسجد میں آکر باجماعت نمازادا کرنا واجب ہے۔
مولانا نے کہا کہ اب شعبان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، اس ماہ میں حضور کثرت سے روزوں کا اہتمام کرتے۔شعبان میں سال بھر کا نامہ اعمال رب کی بار گاہ میں پہنچایا جاتا ہے۔ ہم اب سے رمضان کی ابھی سے تیاری کریں۔ نفسیاتی اور جسمانی و روحانی طور پر رمضان کے لیے ابھی سے تیاری کریں۔
مولانا نے آخر میں بتایا کہ شاہی مسجد میں ’رمضان پریپریشن کورس‘ کا ہر سال کی طرح اس سال بھی اہتمام کیا جائے گا۔شعبان کے پور ے مہینے میں اس کورس کے تحت صرف آٹھ کلاسیس ہر ہفتہ اور اتور کو8:30تا9:30 رات منعقد ہوگی۔ جس میں تجویدقرآن کے ساتھ رمضان کی تیاری کرائی جائے گی۔اس سے ہر کوئی استفادہ کرسکتا ہے۔