سات گھنٹوں کی پوچھ تاچھ کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) نے مہاراشٹر کے کابینی وزیر نواب ملک کو گرفتار کر لیا، ان پر داؤد ابراہیم کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ کا الزام ہے، نواب ملک این سی پی کے قد آور لیڈر ہیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ مہاراشٹر میں وہ شرد پوار کے دایاں بازو سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی گرفتاری کو انتقامی کاروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ نواب ملک مرکزی حکومت اور اس کی تفتیشی ایجنسیوں کے خلاف مسلسل بولتے رہے ہیں، انہوں نے ’’ڈرگ آن کروزکیس‘‘ میں بھی تفتیشی ایجنسیوں اور اس کے افسر سمیر وانکیڑے کے خلاف زبردست محاذ کھولا تھا، اسی وقت سے یہ امید لگائی جا رہی تھی کہ دیر سویر ان کی گرفتاری ہونی طے ہے۔
ہندوستان کی تفتیشی ایجنسیوں کو جو غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں اس کے تحت جانچ کے بعد گرفتاری بھی عمل میں آسکتی ہے ، ایجنسیاں غیر جانب دار ہوں تو کوئی بات نہیں، لیکن جب ایجنسیاں بھی مقید ہوں اور ان کے فیصلے بھی چشم وابرو کے مرہون منت ہوں تو سوالات کھڑے ہونے لگتے ہیں۔
نواب ملک کی گرفتاری جس طرح ہوئی ہے اس کے طریقہ کار پر میڈیا میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، پچیس برسوں سے مسلسل منتخب ہونے والے ایک عوامی نمائندہ کو چار بجے صبح اس کے گھر سے اٹھانا ، گھنٹوں تفتیش کرنا اور کچھ نہ ملے تو عدم تعاون کا الزام لگا کر گرفتار کرلینا قانون اور دستوری تقاضوں کے خلاف ہے-
نواب ملک کا کہنا ہے کہ ان کے سمن پر دستخط ای ڈی کے دفتر میں کرایاگیا، تمام حزب مخالف اس مسئلے پر متحد ہیں کہ نواب ملک کو سچ بولنے کی پاداش میں پریشان کیا جا رہا ہے، انہوں نے واضح طور پر گرفتاری کے بعد کہا کہ ہم لڑیں گے،جیتیں گے، جھکیں گے نہیں، نواب ملک کی گرفتاری سے مہاراشٹر کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو وقتی پریشانیوں کا سامنا ہے، وزیر اعلیٰ پر نواب ملک سے استعف لینے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں کسانوں کو روندوانے والے وزیر سے استعفیٰ نہیں لیا گیا، حالاں کہ یہ عوامی مطالبہ تھا۔ ببیں تفاوت رہ از کجا است تا بکجا۔