بھارت ان دنوں چوطرفہ بحران کا شکار ہے، اور ہر آنے والا دن اسکی پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت، ملک کو بحران سے نکالنے کی جدوجہد کرتی، اسکی حساسیت کو سمجھتی اور پھر اسکے حل کے لئے لائحہ عمل طے کرتی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی حکومت ملک کو مزید کمزور کرنے میں لگی ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری نے اپنا ریکارڈ توڑ دیا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق مہنگائی مسلسل عوام کوتباہ کررہی ہے، اور اس بار نومبر میں ریٹیل مہنگائی نے 12سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، مہنگائی پر قابو پانے میں حکومت بوری طرح ناکام ہورہی ہے، عوام کو راحت دینے کے بجائے مزید ٹیکس لگاکر عوام کو لوٹ رہی ہے، کانگریس میڈیا سیل کے انچارج رندیپ سنگھ سرجے والا نے حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ریکارڈ توڑ بے روزگاری اور گھٹتی آمدنی کے درمیان مہنگائی بدستور تباہی مچارہی ہے، جنوری 2022 میں خوردہ (تھوک)مہنگائی 6,01فیصد، اشیائے خوردنی کی مہنگائی 10,3 ہوگئی، جبکہ نومبر 2021 میں ہی تھوک مہنگائی کی شرح نے 14,23 کے ساتھ بارہ سال کا ریکارڈ توڑا تھا، پھر بھی ٹیکس لوٹ جاری رہے گی،
اس کے ساتھ انھوں نے ایک خبر بھی پوسٹ کی ہے، جس میں مہنگائی میں اضافے کے بارے میں تفصیلی معلومات دی گئی ہیں، پچھلی تحریر میں ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ غریب ترین خاندانوں کی آمدنی میں 53فیصد کی بھاری کمی ہوئی ہے اور دولت مند ترین افراد کی آمدنی میں 39 فیصد کا اضافہ ہوا ہے،بے روزگاری کے معاملے میں کسی بھی ریاست اور مجموعی طور سے پورے ملک کے حالات بے حدتک تشویشناک ہیں، وزارتِ محنت نے گذشتہ سال اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ پچاس برسوں میں سب سے زیادہ ہے، اس حقیقت کے انکشاف کے بعد حکومت نے بے روزگاری کے اعداد و شمار جاری کرنے پر ہی پابندی لگادی تھی، مگر لاکھ پردہ پوشی کے باوجود تلخ حقیقت سامنے آہی جاتی ہے، رپورٹ یہ بھی ہے کہ بےروزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کے خودکشی کےمعاملوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اور بے روزگاری کی وجہ سے ہر مہینے اوسطاً 12 لوگوں نے خود کشی کی ہے۔
ایک طرف تو ملک کی یہ حالت ہے اور دوسری جانب وزیر اعظم اور ان کے دیگر وزراء جھوٹ، فریب اور دروغ گوئی میں مسلسل مصروف ہیں، انھیں اپنے عہدے کے وقار کابھی خیال نہیں، اس شدت کے ساتھ ملک میں جھوٹ پھیلایا جارہا ہے جسکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی، کل تک تو مودی اینڈ کمپنی عوامی جلسوں میں دروغ گوئی سے کام لیتے تھے لیکن اب یہ کام پارلیمنٹ جیسی جگہوں میں بھی ہورہا ہے، پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر کہا جاتا ہے، اور مندر ایک مذہبی جگہ ہے، اس مذہب سے وابستہ لوگوں کے یہاں مندر کا ایک مقدس مقام ہے،جس طرح ہمارے یہاں مساجد مقدس جگہ سمجھی جاتی ہے،لیکن جب ملک میں جمہوریت نام کی چیز ہی باقی نہ ہو تو پھر اس کے مندر کا احترام کیونکر ہوگا؟
یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی بغیر کسی جھجھک اور شرم وحیا کے دھڑلے سے جھوٹ بولا جارہا ہے،صدر جمہوریہ کےخطبہ تحریک تشکر پر ہونے والی بحث کا جواب دیتے ہوئے مودی نے پارلیمنٹ میں کہاکہ ہندوستان کا ایک غریب بھی لکھ پتی ہونے کا مزہ لوٹ رہا ہے، رہنے کے لئے اسکے پاس شاندار گھرہے،جس میں مفت کی بجلی کے قمقموں سے پھیلنے والی روشنی اسکی زندگی کو منور و تاباں کررہی ہے، مفت میں ملنے والی رسوئی گیس نے غریبوں کو دھویں سے پاک باورچی خانہ دیا ہے، جہاں وہ نت نئے پکوان پکاکر اپنے دسترخوان کی زینت بڑھارہے ہیں اور لذت و کام ودہن کے بھی مزے لوٹ رہے ہیں”اس لفاظی اور جھوٹ کو کیا نام دیا جائے؟
کیا واقعی ملک کی زمینی حقیقت یہی ہے؟پھر اس طرح سفید جھوٹ کا سہارا لینے کی کیا مجبوری ہوسکتی ہے؟ کیا یہ بیان ملک کے کروڑوں غریبوں کی توہین نہیں ہے؟کیا ایک جمہوری ملک کا وزیر اعظم ایوان میں بیٹھ کر جمہوریت کی توہین اور غریبوں کا اس طرح مذاق اڑا سکتا ہے؟ ایوان میں اپوزیشن لیڈران بالخصوص راہل گاندھی نے اپنی غیر معمولی تقریر میں حقائق کی نقاب کشائی تھی اور حکومت کے سامنے کئی ایک اہم سوال رکھے تھے جن کا جواب دیا جانا حکومت کا آئینی فریضہ تھا، لیکن مودی نے لفاظی سے بھری اپنی تقریر میں ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا،
اس کے علاوہ تاریخ کی غلط تشریح، زمینی حقائق میں جھوٹ، فریب اور خوابوں کی آمیزش کے ساتھ ایوان کو گمراہ کیاگیا، شاید اسی وجہ سے مودی کی تقریر کے دوران اپوزیشن لیڈران کی آوازیں باربار بلند ہورہی تھیں اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے کئی بار مودی کو اپنی تقریر کا سلسلہ روکنا پڑا، آپ کو یاد ہوگا کہ 2014 میں اپنی پہلی آمد کے موقع پر جمہوریت کے مندر میں سجدہ ریز ہوکر مودی نے ملک کے عوام سے کئی ایک سنہرے وعدے کئے تھے اور ہتھیلی میں جنت دکھائی تھی،
لیکن اٹھ سال گذر جانے کے باوجود ان کا کوئی وعدہ وفا نہیں ہوسکا، اس کے برخلاف ملک ایک ایسے مقام پر پہونچ گیا جہاں سب کچھ داؤ پر لگا ہواہے، جمہوریت سے لیکر معیشت تک ترقی معکوس کی آخری منزل پر ہے،بےروزگاری، مہنگائی اور غربت کی ہولناکیاں دھیرے دھیرے ملک کو نگل رہی ہیں، لیکن یہ مغرور اور بے شرم حکومت اس پر اٹھنے والے کسی سوال کا جواب دینے کےلئے تیارنہیں ہے،اور نہ ہی وزیراعظم اسے کوئی مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔
مودی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہہ دیا کہ ملک میں بے روزگاری یا مہنگائی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، مہنگائی ماضی کی بات ہے، مہنگائی یوپی اے اور کانگریس کے دور میں ہواکرتی تھی، انھوں نے ملک بھر میں کورونا کے بڑھنے کا ذمہ دار بھی کانگریس سمیت حزب اختلاف کو ہی ٹہرا دیا، مودی نے یہ بھی دعویٰ کیاکہ کوویڈ19 کے دوران انکی سرکار نے روزگار فراہم کئے، اور80 کروڑ لوگوں کو ہم نے کھانا کھلایا، سوال یہ ہے کہ جب آپ نے روزگار فراہم کیا، تو پھر لوگوں کو کھانا کھلانے اور غلہ تقسیم کرنے کا کیا مطلب؟ اس کا سیدھا مطلب تو یہی ہے کہ ابھی اس ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو اپنا پیٹ بھی اپنی کمائی کے ذریعے نہیں بھرسکتے اور انھیں مفت کے غلے کے سہارے زندگی گذارنا پڑتا ہے۔
ایوان کے تقدس اور وقار کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں کئے جانے والے سوالات کے جواب سنجیدگی سے دئے جائیں اور سائل کو مطمئن کیا جائے، ان کے اشکالات دور کئے جائیں، لیکن گذشتہ کچھ سالوں سے ایسا نہیں ہورہا ہے، اب یہاں جس طرح کی سطحیت اختیار کی جارہی ہے اسے ایوان کی بے توقیری کے علاوہ اور کیا نام دیاجاسکتا ہے؟کیا ان رویوں سے ایوان کا وقار مجروح نہیں ہورہا ہے؟کانگریس کو اقتدار سے رخصت ہوئے 8برس کا عرصہ گذرجانے کے باوجود لگتا ہے کہ ابھی تک مودی حکومت پر کانگریس کا خوف طاری ہے، اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے ایوان کو کانگریس سے نفرت کے اظہار کا پلیٹ فارم بنا دیا گیا ہے، آخر وزیر اعظم کو کانگریس کی اتنی فکر کیوں ہے؟ انھیں اس بات کی فکر کیوں نہیں ہے کہ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت نئے ریکارڈ کیوں بنارہی ہے؟
ہندوستان جنت نشان جیسے ملک میں اب دو بھارت کیوں بن رہا ہے؟ملک کی ساری دولت اور وسائل دو ہاتھوں تک ہی کیوں سمٹ رہے ہیں؟ ایوان کو ان جیسے درجنوں دوسرے سوالات کے جواب ملنے چاہئے نہ کہ جھوٹ اور لفاظی کی آمیزش سے بناہوا خواب ایوان کو سنایا جائے، ملک کی عوام سفید جھوٹ کے ذریعے ایوان کے وقار کو مجروح کرنے والی حکومت کو ضرور سبق سکھائیں گے، ایوان پارلیمنٹ کے تقدس اور اس کے تحفظ کے لئے، ڈکٹیٹر شپ اور تاناشاہی کو ختم کرنے کےلئے عوام کو آگے آنا ہوگا، وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے راجیہ سبھا میں عام بجٹ پر بحث کا جواب دیتے ہوئے یہی کام کیا جومودی نے کیا، یعنی بجٹ پر اٹھتے ہوئے سوالات کے جواب سے گریز کرتے ہوئے اپناروئے سخن حزبِ اختلاف کی جانب کردیا اور اپنی تقریر میں سارا زور راہل گاندھی اور سابقہ حکومت کی ناکامیاں شمار کرانے میں صرف کر ڈالا،
حالانکہ ایوان کے تقدس واحترام کا تقاضا تھا کہ وزیر خزانہ بجٹ پر ہوئی بحث میں اٹھنے والے سوالات کا معقول جواب دیتیں لیکن بجائے اسکے وہ بی جے پی کی جاریہ دور حکومت کو’امرت کال’ اور سابقہ یوپی اے حکومت کو راہل کال قرار دیتے ہوئے قوم کو راہل کال اور امرت کال کا فرق سمجھانے لگیں، یکم فروری کو اپنی 90منٹ کی بجٹ تقریر میں انھوں نے صرف ایک بار غریب کا لفظ استعمال کیا تھا، بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور جواب دیتے وقت بھی انھوں نے غریب کا لفظ فقط حوالے کےلئے ہی استعمال کیا، سیتارمن نے جو بجٹ پیش کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کے لئے کچھ نہیں ہے،ایسے ہی بجٹ میں شعبہ صحت کو بری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے، شعبہ صحت کے لئے بجٹ میں ہم 189 ممالک میں 179نمبر پر ہیں اور پھر اسی بجٹ میں کوویڈ سے متعلق مختص فنڈ میں بڑی کٹوتی کردی گئی ہے۔
اسی طرح اس بجٹ میں بے روزگاری ختم کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کے بڑھتے رجحان پر کیسے قابو پایا جائےگا؟ جب سے یہ بجٹ پیش ہوا ہے تب سے حکومت،حزبِ اختلاف اورعوام کی شدید تنقید کا سامنا کررہی ہے لیکن اب تک حکومت نے نہ اپوزیشن کو مطمئن کیا اور نہ عوام کو، سیتارمن نے کہاکہ ملکی معیشت مضبوط ہورہی ہے، روزگار کی صورتحال بہتر ہورہی ہے اور مہنگائی کنٹرول میں ہے،کیا یہ سفید جھوٹ نہیں ہے؟یہ توجھوٹ کی کہانی تھی۔
اب لوٹ مار کی کہانی سنئے،آپ کو یاد ہوگا کہ مودی نے کہا تھاکہ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا’یہ بھی کہا تھاکہ اب ملک میں غریبوں کے اچھے دن آئیں گے، ملک کے غریبوں کے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن برے دن ضرور آگئے، بدعنوانی اور بینکوں سے کی جانے والی دھوکہ دہی کے معاملات اب انتہائی مکروہ شکل اختار کرتے جارہے ہیں، انسدادِ بدعنوانی کے بلند بانگ دعوؤں کی اب قلعی کھلتی جارہی ہے،23 ہزار کروڑ روپے کی تازہ واردات نے بی جے پی کے سیاسی عزائم پر پھر خاک ڈال دی ہے۔
یہ واردات انجام دینے والی کمپنی ہندوستان کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو جہازسازی کا کام کرتی ہے، اے بی جی شپ یارڈ کے نام سے کام کرنے والی گجرات کی اس کمپنی نے ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا فراڈکیا ہے،یہ فراڈ حکومت کی عین ناک کے نیچے ہوا لیکن حکومت کو اسکی خبر تک نہ ہوسکی،سی بی آئی نے اے بی جی شپ یارڈ کمپنی پر 22,842 کروڑ کے مبینہ بینک فراڈ کا معاملہ درج کیا ہے، ایف آئی آر کے مطابق یہ گھوٹالہ 2012 سے 2017 کے درمیان کا ہے، یعنی دھوکہ دہی کا سلسلہ اگر یوپی اے حکومت کے دوران شروع ہواتھا تو مودی حکومت آنے کے تین سال بعد بھی جاری رہا اور اس کے بعد تقریباً پانچ سال بعد اس پر قانونی کارروائی شروع ہوئی ہے، بینک کو لوٹنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،آپ کو یاد ہوگا کہ پنجاب نیشنل بینک سے نیرو مودی اور میہول چوکسی نے 13ہزار کروڑ روپے ہتھیاکر ملک سے فرار ہوگئے تھے،ایسے ہی ایمی مودی، نیشال مودی، للت مودی، وجئے مالیا، جتن مہتا، چیتن سندیسارا، نتن سندیسارا اور کئی دوسرے شامل ہیں۔
یہ سارے واقعات مودی حکومت کے دور میں پیش آئے یا یہ کہئے کہ مودی کے دور میں ان لوگوں کے اچھے دن آگئے، مودی کےآٹھ سالہ دور حکومت میں ملک بھر کے بینکوں میں 535000لاکھ کروڑ کی دھوکہ دہی ہوئی ہے، سی بی آئی کے مطابق اس بینک فراڈ کا دائرہ اور پیمانہ دونوں ہی حیران کن ہیں، اے بی جی شپ یارڈکمپنی نے آئی سی آئی سی آئی، ایس بی آئی، اور پنجاب نیشنل بینک سمیت 28بڑے قومی بینکوں پر مشتمل ایک کنسٹوریم سے لین دین کے لئے باقاعدہ دھوکے کا جال بنا،ان بینکوں سے قرض لیا اور پھر انکا رخ موڑ دیا، اس کمپنی نے جن بینکوں سے قرض کے نام پر ہزاروں کروڑ کا دھوکہ کیا یہ وہی بینک ہیں جو عام لوگوں سے تمام کاموں کےلئے فیس وصول کرتے ہیں،کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بینکوں سے ہورہی یہ سنگین دھوکہ دہی اور جعل سازی ملکی معیشت کو غار میں ڈھکیل رہی ہے، کیا ان واردات سے ملک ترقی کرےگا؟
سوال یہ بھی ہے کہ یہ دھوکے باز صنعت کار اور سرمایہ دار، بینکوں سے اتنے بڑے بڑے قرضے لیکر آسانی سے ملک سے فرار بھی ہوجاتے ہیں اور حکومت بے بسی کا مظاہرہ کیوں کرتی ہے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر یہ جھوٹ اور لوٹ مار کا کاروبار ملک میں کب تک چلتارہےگا؟ اور کب اس پر لگام لگے گا؟