میری یونیورسٹی تعلیم کے زمانے میں، غیر نصابی سرگرمیوں (extra curricular activities) کے زیراہتمام، حالات حاضرہ کے تناظر میں متفرق موضوعات پر مباحثہ(debates) کے پروگرام منعقد ہوا کرتے تھے۔ مذکورہ قسم کی مصروفیات یہ جاننے میں معاون ہوتی تھیں کہ ہمارا معاشرہ کس طرح کے رسم و رواج اور مسائل و مصائب سے دوچار ہے۔ نصاب تعلیم کے بر عکس، مختلف مباحثوں کا انعقاد نہ صرف تفریح (entertainment) کا ایک کامیاب ذریعہ ہوتا تھا، بلکہ موجودہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی ایک بہترین کوشش بھی۔ ایک مرتبہ، مباحثہ کا عنوان بہت ہی عجیب اور سخت تھا، اور وہ تھا کہ
"مرنے کا حق ہونا چاہیے”
اس ضمن میں، میرا مؤقف تھا کہ کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے قطع نظر، جو چیز جلد یا بدیر واقع ہو ہی جانی ہے، یعنی "موت”، اس پر "حقوق” کی اتنی دہائی کیوں؟
علاوہ ازیں، جو مرنے یا بالفاظ دیگر، خودکشی کا حق مانگنے لگے، اس کو مزید زندہ لوگوں میں شمار کرنا کیا مناسب رہے گا؟
مشہور مقولہ ہے: "جو ڈر گیا، وہ مرگیا”۔
اس کے برعکس، خالق کائنات کے تخلیقی منصوبہ کے تحت، جس چیز کی کوئی ضمانت نہیں اور جو کبھی بھی ختم ہوسکتی ہے، یعنی "زندگی”، اس کو بہتر اور بامعنی بنانے کی جستجو کی جانی چاہئے۔
مایوسی کی سنگین کیفیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ خودکشی کی تمنا، مایوسی کی انتہا ہے۔ زیرنظر مضمون، "مایوسی” کے اسباب (causes) اور ان کا سد باب (remedy) کے متعلق علمی، فکری اور مشاہداتی مطالعہ کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔
اس سے پہلے کہ مایوسی کسی کو اپنی گرفت میں لے لے، ہم سب کو محتاط (cautious) رہنے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ
"ساودھانی ہٹی، درگھٹنا گھٹی” ( بے احتیاطی کسی حادثہ کا سبب بن سکتی ہے)۔
انسان کے حالت مایوسی تک پہنچنے میں کیفیات نا شکری کا بڑا ہاتھ ہے۔ انسان کی زندگی میں نا شکری واقع ہونے کی متعدد شکلیں ہیں، جن کی شروعات "شکایت” کے شیطانی فعل سے ہوتی ہے ۔ جب آدمی، کسی نا کامی سے دوچار ہوتا ہے اور اپنی حماقتوں کا خود اعتراف کرنے کے بجائے، کسی دوسرے شخص یا افراد کو مورد الزام ٹھہراتا ہے، تب گویا کہ اس نے مایوسی کی سمت میں اپنا قدم بڑھا دیا۔ دراصل، اعتراف، انسان کو احتساب تک لے آتا ہے، اور خود احتسابی، یقیناً، اپنی کوتاہیوں کی نشاندہی میں معاون ثابت ہو تی ہے۔ غلطی کا علم ہی آخر کار، غلطی کے ازالہ کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اپنی لغزشوں کا اعتراف نہ کرنے والا شخص شکایات کے مکڑ جال (cobweb) میں الجھ کر رہ جاتاہے۔ پہلے شکایت، پھر عداوت، پھر اداسی اور پھر مایوسی، یہاں تک کہ زندگی سے ہی بے زاری کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔
چوں کہ انسان اپنے رب کا ناشکرا واقع ہوا ہے (العادیات،100: 6)، اللہ تعالی کی نعمتیں در نعمتیں کھاتا رہتا ہے، مگر مشکل سے ہی اسے اپنے منعم کی یاد آتی ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے۔ بیشتر انسانوں کا یہی حال ہے، جب کہ اللہ تعالی شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کا حکم ہے:
” بلکہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور شکر کرنے والوں میں سے بنو "(الزمر،39: 66)۔
انسان کی زندگی میں، رات- دن، زمین- آسمان، سورج- چاند، سمندر-پہاڑ، ہوا- پانی اور روشنی- گرمی جیسی بڑی بڑی ربانی عنایات تو اللہ تعالی کی نعمتوں کے طور پر شمار ہی نہیں کی جاتیں۔ چلنا- پھرنا، اٹھنا- بیٹھنا، سونا- جاگنا، کھانا- پینا، دیکھنا- سننا اور سونگھنا- سوچنا، یہاں تک کہ سانس لینے جیسے بڑے بڑے ربانی احسانات بھی، روز کا معمول ہونے کی وجہ سے، نعمت کے انسانی تصور میں جگہ نہیں بنا پاتے، جب کہ ان میں سے کسی ایک بھی چیز کی محرومی کے تصور سے ہی سنجیدہ انسان پر لرزہ طاری ہوجائے۔ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ چند کھانے پینے کی چیزوں کو ہی اللہ تعالی کی نعمت سمجھتا ہے، اس پر بھی مشکل سے ہی الحمدللہ کہتا ہے۔
قرآن شریف کی سورة البقرة کی آیت نمبر 155 میں مذکور، اللہ تعالی کے قانون ابتلا، یعنی "امتحان کا قانون” کے تحت جب اس کی کسی چیز میں کمی کردی جاتی ہے تو وہ ایک دوسری بڑی برائی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے ۔ پہلے, اگر شکر نہ کرنے کی برائی میں ملوث تھا تو بعد میں صبر نہ کرنے کی حماقت میں !
زندگی سے صبر و شکر کا نکل جانا، انسان کو لعنت زدہ بنا دیتا ہے، اور اس طرح وہ اداسی سے آگے بڑھ کر ڈپریشن اور پھر مایوسی کا شکار ہوجاتاہے ۔
نا شکری اور بے صبری، دونوں ہی نہ تو انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور نہ ہی شرف انسانیت کے!
ہندوستان کے ایک مشہور اردو شاعر، بشیر بدر کا ایک شعر ہے:
"خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے،
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا”۔
اس بظاہر دلکش شاعری میں، شکایت بھی ہے، اداسی بھی ہے اور مایوسی بھی۔ ان منفی جزبات کے اظہار کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ دراصل، رب کائنات کے تخلیقی منصوبہ سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ہم سب کو اچھی طرح جاننا چاہیے کہ "خواہشات” کا من و عن پورا ہونا صرف آخرت میں آباد کی جانے والی دنیا، یعنی "جنت” کا ہی معاملہ ہے، ہماری موجودہ دنیا کا نہیں!
جنت کی نعمتوں کا تو یہ حال ہے کہ
” وہاں ہر چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے۔۔۔” (فصلت، 41: 31)
آج کے عام انسان ہی نہیں، بلکہ بیشتر بظاہر، تعلیم و ترقی یافتہ افراد بھی شکایت، اداسی اور مایوسی جیسی مہلک منفیات (negatives) میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ کائنات میں بکھری پڑیں خدا کی نشانیوں میں غور وفکر کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے تخلیقی منصوبہ (Creation Plan of God) کا ادراک (realisation) نہ ہونا ہی، جملہ قسم کی شکایات، اداسی اور مایوسی کا بنیادی سبب ہے۔
کسی چیر کا اسی جگہ پر تلاش کرنا سود مند ہوسکتا ہے، جہاں وہ موجود ہو۔ تخلیقی اعتبار سے دنیا اور آخرت دونوں ہی، دو مختلف، بلکہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ جنت کی آزادی اور عیش و آسائش، بطور جزا، اپنے نقطہ کمال پر ہیں، جب کہ دنیا بھی عیش و عشرت کے سامان سے تو بھری پڑی ہے، مگر یہ سامان، سامان راحت نہیں، بلکہ صرف آزمائش کا ایک پرچہ ہے ۔ یہاں کی چیزوں میں سب کچھ ہے، مگر اطمینان قلب نہیں، کیوں کہ دنیا کو اس طرز پر بنایا گیا ہے کہ یہاں انسان کسی بھی درجہ کا عیش و آرام حاصل کر لینے کے باوجود، ماضی کے پچھتاوے ( پشیمانی) اور مستقبل کے اندیشوں (خدشات) سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ماضی اور مستقبل سے وابستہ یہ دونوں ہی کیفیات انسان کو دنیا میں بےچین رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ افسوس مگر یہ ہے کہ پھر بھی، بیشتر انسان، شیطان کے اشاروں پر دنیاوی لوازمات کو ہی اپنا ہدف بنائے رہتے ہیں۔ یہ صرف جنت میں آباد لوگوں کا ہی امتیاز ہوگا کہ وہ کسی بھی طرح کی پشیمانی اور خدشات سے محفوظ رہیں گے۔ انسان کا معاملہ نشان عبرت ہے کہ وہ بھی دنیا کی بے ثباتی کا ادراک تو کرتا ہے، مگر عموماً، دنیا سے رخصت ہونے کے وقت!
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ آخری لمحات میں سوال حل کرنے کا جوش امتحان کے نتائج پر کوئی خاص مثبت اثر مرتب نہیں کرتا۔
انسان کے عجیب ہونے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ وہ کسی بھی مشین، کمپیوٹر، یہاں تک کہ موبائل کی خریداری کے وقت اس کا مقصد تخلیق، کارکردگی کی ضمانت اور استعمال کا طریقہ جاننے کے لیے اس کا مینوئل (manual) حاصل کئے بغیر نہیں رہتا، مگر اس کے اندر کائنات میں بے شمار عجائبات اور انسانوں کے ایک سے بڑھ کر ایک کمالات دیکھنے کے بعد بھی ان کے بارے میں تفصیل سے جاننے کا تجسس پیدا نہیں ہوتا۔
دنیا اور دنیا میں آباد انسانوں کی پیدائشی کا مقصد اور ان کے انجام کے بارے میں جاننے والوں کے لیے، ابھی بھی جاننے کا پورا موقع موجود ہے، کیوں کہ واضح ربانی ہدایات، ایک محفوظ کتاب کی شکل میں آج بھی دستیاب ہیں ۔ اس خدائی ہدایت نامہ (divine guide book) کا نام "قرآن” ہے۔
انسان اپنی زندگی میں، جن عوامل کو شکایت، مسائل، اداسی اور مایوسی گردانتا ہے، در اصل، دنیا میں، وہی اس کے امتحان کا پرچہ ہیں۔
انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ‘عقل و شعور’ کا استعمال کرکے، ‘آفاق و انفس’ کی نشانیوں میں غور و فکر اور تدبر کے ذریعے اللہ تعالی کی حکمت و مصلحت کا ادراک حاصل کرے۔ ساتھ ہی قرآنی ہدایات کی روشنی میں اپنے دنیاوی امتحان کے پرچہ کو شرف انسانیت کے معیار پر ظاہر و باطن کی پاکیزگی کے ساتھ حل کرے ۔ مذکورہ ساری باتیں کوئی ادبی تخلیق نہیں، بلکہ اس حقیقت کو واضح کرنے کی ایک کوشش ہے کہ موجودہ دنیا، فی الحال، جہاں ہم رہتے ہیں، امتحان کے نقشے پر بنائی گئی ہے۔ یہاں کی ہر ہر شے انسان کی آزمائش کے لیے ہے، مسائل و مصائب بھی اور عیش و آسائش بھی!
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ امتحان ہال کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟
امتحان میں شریک ہونے والے شخص کو کرسی اور میز کے ساتھ عموماً، چھت پر پنکھا بھی دستیاب ہوتا ہے ۔ عام طورپر، ہال میں پینے کے لیے پانی بھی میسر ہوتا ہے۔ دیئے گئے کاغذ پر لکھنے کے لیے پین، پینسل استعمال کرنے کی اجازت بھی ہوتی ہے، مگر دو یا تین گھنٹے کا، پرچہ حل کرنے کے لیے جو وقت مقرر ہے، اس سے زیادہ ہال میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چائے پینے کی، دوستوں سے گپ شپ کرنے کی، موبائل پر چیٹنگ کرنے کی اور دوسری تمام چیزوں کی، جنہیں وہ امتحان کے علاوہ کرنا چاہتا ہے، اجازت نہیں ہوتی ہے۔ ان ساری بندشوں کے باوجود، جو طلباء اپنے امتحان کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ اپنا پورا وقت سوالات کے بہترین جوابات لکھنے میں صرف کر تے ہیں۔ اس دوران ان کو دوستوں کی یاد نہیں آتی، عشق و معاشقہ کے جذبات تنگ نہیں کرتے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی طلب بھی زور نہیں پکڑتی، یعنی کچھ گھنٹوں کی مشقت وہ خوشی خوشی، کسی طرح کی ٹینشن(tension) یا اسٹریس(stress) کے بغیر با آسانی قبول کر لیتے ہیں۔ پھر کچھ دن کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ امتحان کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے اور امتحان کے معاملے میں سنجیدگی کا ثبوت فراہم کرنے والوں کو مختلف درجات میں کامیاب قرار دیا جاتاہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کچھ گھنٹے صبر کرنے والے مخصوص افراد کو انعام و اکرام سے نوازا جاتاہے۔ ساتھ ہی ساتھ، ان کو خوشیاں منانے کے سیکڑوں دوسرے مواقع حاصل ہوجاتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ دعوتیں، محبوب کے ساتھ ملاقاتیں، یہاں تک کہ سبھی کچھ ان کی اپنی مرضی سے ہونے لگتاہے۔ اسی صورت حال کو ذرا تصورات میں زوم (zoom) کر کے دیکھنے پر نظر آئے گا کہ اپنے دنیاوی امتحان میں پاس ہونے والے خوش نصیب افراد، کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر جنت کے عیش میں مشغول ہیں۔
اب ذرا ان افراد کے متعلق بھی سوچ کر دیکھیے، جنہوں نے امتحان ہال میں ہر ہر چیز کی ناکام تمنا کی، مگر وہی کچھ نہ کیا جس کی وہاں، اس وقت ضرورت تھی۔ انجام کے بطور، ہمیشہ کے لیے ناکام و نا مراد ہوکر رہ گئے۔
آخر دنیا میں انسان کاامتحان ہے کیا ؟
آسان زبان میں، انسان کو اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ اپنے ظاہر و باطن کو "پاکیزہ” بنانا ہے۔ اسلام کی زبان میں اس پاکیزگی کو "تزکیہ” کہتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین تقویم (بناوٹ ) پر پیدا کیا ہے(التین،95: 4)، تاکہ وہ کائنات میں پوشیدہ انسانوں کی افادیت کی چیزوں تک رسائی حاصل کر ے، انسانی فلاح و بہبود کے لیے ان کا استعمال کرے اور قیامت تک انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کو یقینی بنائے۔
آفاق و انفس کے عجائبات، انسان کو سامان تشکر (thankfulness) اور سامان استکبار (arrogance)، دونوں فراہم کرتے رہیں گے۔ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے جس سامان کا انتخاب کرتا ہے، وہی اس کا امتحان ہے۔
اللہ تعالی اپنے بندوں پر ان کی مائوں سے بھی زیادہ مہربان ہے( صحیح البخاری: 5999)۔ اس لیے، اس نے ان کی بہترین رہنمائی کے لیے، کائنات میں اپنی بے شمار نشانیوں کے ساتھ ساتھ، قرآن کی صورت میں ہمیشہ کے لیے، ربانی ہدایت نامہ، اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔
یوں تو دنیاوی ترقیات کے لیے ٹینشن اور اسٹریس کا وجود نہائت ضروری ہے، پھر بھی اپنے بندوں کو زیادہ اور مستقل ٹینشن اور اسٹریس کے مہلک اثرات سے بچانے کے لیے، اللہ رب اللعالمین نے ان حقائق کو جن سے انسان کا بچنا محال ہے، قرآن میں بیان کردیا ہے، تاکہ اس کے بندے، پیشگی اطلاع کے طور پر، خود کو ٹوٹنے سے بچا سکیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ” اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اور ان ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری سنا دو۔” (البقرہ، 2: 155)
اس حقیقت کو جاننے کے بعد بھی کیا انسان کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ "مایوسی” کا شکار ہو؟ اداسی اور مایوسی تو دور کی بات، انسان کو تو اپنے رب کا مزید شکر گزار ہوجانا چاہیے، کیوںکہ یہاں پر اپنی جان و مال کے نقصان پر صبر کرنے والوں کے لیے "خوش خبری” کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ انسان بارش، آندھی، طوفان اور زلزلہ جیسی آفات سے ان کو نیچرل (فطری ) سمجھ کر پریشان نہیں ہوتا، بلکہ "چھتری” جیسے بندوبست کے ذریعے اپنی زندگانی کے سفر کو بشان و شوکت جاری رکھتاہے۔ اسی طرح وہ پاس-فیل اور امیر- غریب نوعیت کے مسائل کے غم سے بھی با آسانی باہر آسکتا ہے، کیوں کہ یہ سب بھی موجودہ عارضی دنیا کے ہی اصول ہیں۔
عموماً، گھروں میں خدائی مصلحت (divine strategy) اور فطری قوانین (natural laws) جیسے موضوعات پر والدین اور بچوں کے درمیان تبادلہ خیال نہ ہونے کی وجہ سے، بچے نفسیاتی طور پر مضبوط نہیں ہوپاتے ہیں، اور ہائی اسکول اور ہائر سیکنڈری اسکول کے بورڈ امتحانات کے اعلان نتائج کے موقع پر خود کشی جیسی درد ناک خبریں سننے کو مل جاتی ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس حقیقت پر مطمئن کریں کہ "فیل” ہونے کے بعد بھی "پاس” ہونے کے مواقع باقی رہتے ہیں، مگر موت کے بعد زندگی کا کوئی موقع نہیں۔
یہ سچائی زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد کو بھی معلوم ہونی چاہیے۔ عام طور پر لوگ پروموشن اور دوسری ترقیات کے میدان کی اندھی دوڑ میں شریک ہوتے رہتے ہیں اور نتیجتاً، بہت سارے لوگ اداسی، ڈپریشن اور مایوسی جیسی مہلک بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
اس موقعہ پر میں اپنے ان تمام انسان بہن اور بھائیوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں جو مایوسی کی سمت جانے والی سڑک پر چل پڑے ہیں، اور "شکایت” اور "اداسی” کی منزل تک پہنچ بھی چکے ہیں۔ میرا نیک مشورہ یہ ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ اپنی قربت بڑھائیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ خالق کائنات نے انسان، انسانی دنیا اور بقیہ کائنات کو کتنی زیادہ وسعت اور امکانات کے ساتھ پیدا کیا ہے!
اللہ تعالی کی آخری کتاب، قرآن مجید، انسان کی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر نے کے لیے بے نظیر رہنمائی سے بھری پڑی ہے۔
انسانی پوٹینشیل (پوشیدہ امکانات ) کے تناظر میں، یہ صرف ایک مفروضہ نہیں ہے کہ "اسکائی از دی لمٹ” ۔
آسمان جیسی بلندیوں تک انسان کی ترقیاتی رسائی کےلیے، انسان کی "شخصیت” کو جو موت کے بعد بھی باقی رہنے والی ہے، لا محدود پوٹینشیل (پوشیدہ صلاحیتیں) سے مزین کرکے دنیا میں پیدا کیاگیا ہے۔ ہاں، اس پوٹینشیل کو وقوع پذیر کرنے کے لیے ضرور "جہاد” کی سطح کی کوششیں درکار ہیں۔ اس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ انسان اپنی کوششوں کے بقدر دنیاوی ترقی حاصل کرسکتا ہے۔
دنیا مشکلوں کا سر چشمہ ہونے کے باوجود، انسان خود کو ڈپریشن اور مایوسی جیسے داعیات سے محفوظ رکھ سکتا ہے، اگر وہ اپنے عقل و شعور کو استعمال کرتے ہوئے، اپنی بالقوہ صلاحیتوں کو بالفعل واقعہ بنانے کی مخلص کوشش کرے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
"بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے” (الشرح،94: 6)۔اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اپنی مشکل ( یعنی، مسائل) کو کس طرح آسانی (یعنی، مواقع) بناتا ہے۔
پوشیدہ امکانات کیسے واقعہ بنتے ہیں، اس کا مشاہدہ مجھے ایک آلو (potatoes) کے کھیت میں ٹریکٹر کو چلتے ہوئے دیکھ کر ہوا۔ آلو کی فصل تیار ہونے کے بعد کھیت ایک دم صاف تھا، وہاں آلو کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ جیسے ہی ٹریکٹر نے اپنے ہلوں کے ساتھ کھیت میں چلنا شروع کیا، پیچھے پیچھے آلو برآمد ہونے لگے۔ آلو کی نشونما مٹی کے اوپر نہیں بلکہ مٹی کے اندر ہوتی ہے، گویا کہ چھپی ہوئی صلاحیتوں کو باہر نکالا جارہاہے، یعنی انسان اپنی ذہنی اور جسمانی طاقت کا استعمال کرکے اپنے پوٹینشیل کو واقعہ بنا سکتا ہے اور اپنی اور انسانی فلاح کے راستے ہموار کرسکتاہے۔
آخرت کی فلاح کے لیے بھی، جب انسان اپنی لغزشوں سے توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کریم سے رجوع کرتاہے، تو اللہ تعالی کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ وہ اعلان فرماتاہے:
"۔۔۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔۔۔” (الزمر، 39: 53-54)۔