مسکان خان
حالات حاضرہ

جو جھک سکا نہ بِک سکا اس رہنما کی بیٹیاں!

اسلام کے ذریں اصولوں کے پیرائے میں تربیت یافتہ بیٹیاں ملک وقوم کا بہترین سرمایہ ہے، انھیں عظیم سرمایوں میں ایک نام”مسکان خان”کا بھی ہے، جن کا تذکرہ آج سوشل میڈیا سے لیکر پوری دنیا کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ہے، انھوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ یقیناً پوری قوم کے لئے باعث فخر ہے۔

تاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل انسانی معاشرہ مختلف طرح کی بیماریوں میں مبتلاء تھا یا دوسرے الفاظ میں یہ کہئیے کہ وہ ایک حیوانی معاشرہ بن چکا تھا، ہر قسم کی اخلاقی ومعاشرتی بیماریاں اس سماج میں موجود تھیں، تعلیم وتربیت سے کوئی سروکار نہ تھا، غربت و افلاس نے چاروں جانب ڈیرے ڈال رکھے تھے، ظلمت وبربریت عروج پر تھا،ان سب چیزوں کے درمیان اس معاشرے میں بیٹیوں کی پیدائش کو باعث ننگ و عار سمجھا جاتا تھا، اور ان کی پیدائش ہوتے ہی انھیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا، پھر جب 1400سال پہلے اسلام کا پیغام عام ہوا اور وہ اپنی کرنوں سے دنیا کو منور کرنے لگا تو صاحب اسلام،حضور اکرم ﷺ پوری کائنات کےلئے رحمت بن کر تشریف لائے،اور پھر آپ ﷺ نے دنیا کے اس بدترین رسم کا خاتمہ فرمایا، صنف نازک کو وہ حقوق عطا فرمائے، انھیں سماج میں وہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا جو اسلام سے پہلے انھیں کسی مذہب نے نہیں دیا تھا، پہلے جس عورت کو زحمت اور رسوائی کا سبب سمجھا جاتا تھا، سرور کونین ﷺ نے اسی خاتون کو بیٹی کے روپ میں باپ کے لئے رحمت، بھائیوں کے لئے عزت، بیوی کے روپ میں شوہر کے دین وایمان کی محافظ اور ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت سنائی،اسلام نے بیٹیوں کی بہترین پرورش پر دنیا وآخرت کی بھلائی اور ساتھ ساتھ جنت کی بشارت بھی عطافرمائی۔

ایک معروف حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ’ جس کسی کے تین بچیاں ہوں اور وہ انکی تکلیف ومعاشی پریشانیوں پر صبرکرے تو ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی وجہ سے رب کریم اسے جنت عطا فرمائے گا، ایک صحابی نے پوچھا یارسول اللہ!اگر کسی کو دوبچیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو؟ ارشادہوا اگر دوہوں تب بھی اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائے گا، پھر کسی نے پوچھا یارسول اللہ! اگرایک ہی بیٹی ہوتو؟آپ ﷺ نے فرمایا اگر ایک بچی ہو اور وہ اسکی اچھی تربیت کرے،اسکی تعلیم وتربیت پرتوجہ دے تب بھی اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائےگا”(مسنداحمد)

اس طرح کی اور بھی بہت سی روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، مجھے یہاں ساری حدیثیں نقل نہیں کرنی ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ صدیوں سے خواتین جس جائز حق اور عزت کی حقدار تھی اسلام نے اسے ہر وہ حق عطا فرمایا، یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو پہلی درسگاہ اور پہلا اسکول قرار دیا، یہ بتانے کےلئے کہ افراد معاشرہ کے تربیت کی اولین ذمہ داری قدرت نے خواتین کے سپرد کی ہے، لہذا ایک بچی کی بہترین تعلیم وتربیت ایک نسل کی تربیت ہے، بیٹی رحمت اسوقت بن سکتی ہے جب اسکی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہو،آپ نے اپنی اولاد کو دنیا بھرکی ساری چیزیں، سارے وسائل، ٹیکنالوجی سب فراہم کردیا لیکن اگر انھیں اپنے مذہب سے روشناس نہیں کرایا، اسلامی تعلیمات سے انکی واقفیت نہیں ہوسکی، انکی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ اولاد آپ کے لئے،آپ کے گھر اور خاندان کے لئے رحمت ہو،اللہ نے اگر آپ کو بیٹیاں دی ہیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ انھیں اسلام کی بے شمار اور باکمال شہزادی و پاکباز خواتین کے تذکرے اور کارناموں سے واقف کرائیں۔

اسلام نے بیٹیوں کو اتنی اہمیت دی کہ خود رسول اکرم ﷺ اپنی صاحب زادیوں کے ساتھ انتہائی محبت اور رحمت کے ساتھ پیش آتے تھے، اپنی بچیوں کو آتے دیکھتے تو آپ ﷺ محبت میں کھڑے ہوجاتے، ان کی پیشانی چومتے اور پاس بٹھاتے،کبھی اپنی چادر زمین پر ان کے لئے بچھادیتے، حضرت فاطمہؓ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ”وہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے”چار بیٹیوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے چھوٹی بیٹی ہیں، حضرت زینب، حضرت رقیہ، اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہن یہ چاروں بیٹیاں اللہ نے آپ کو عطافرمائی، حضرت فاطمہؓ کے ساتھ آپ کا معاملہ انتہائی مشفقانہ ہوتا تھا اور بہت زیادہ شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے،آپ ﷺ جب بھی سفرمیں تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملتے اورجب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ ہی کے گھر تشریف لےجاتے، یہ تھی آپ کی بیٹیوں سے محبت۔

کیا ہم لوگ بھی اپنی بیٹیوں سے اسی طرح کابرتاؤ اور محبت کرتے ہیں؟ یاد رکھئے بیٹیوں کو جائز حقوق اور بہترین تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرنا، ہر والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے، اسلام کے ذریں اصولوں کے پیرائے میں تربیت یافتہ بیٹیاں ملک وقوم کا بہترین سرمایہ ہے، انھیں عظیم سرمایوں میں ایک نام”مسکان خان”کا بھی ہے،جن کا تذکرہ آج سوشل میڈیا سے لیکر پوری دنیا کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ہے، انھوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ یقیناً پوری قوم کے لئے باعث فخر ہے،کل تک انھیں کوئی نہیں جانتا تھا آج پوری دنیا میں ہرزبان پر انھیں کا تذکرہ ہے، قومی وعالمی میڈیا کے لوگ ان سے انٹرویو کےلئے انکے گھر پر دستک دے رہے ہیں۔

اسلامی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسی بہادر،جری اور باکمال خواتین کی ایک طویل فہرست ہے،جنھوں نے اہم کارنامے انجام دیئے ہہیں،مسکان خان کا تعلق کرناٹک کے منڈیا ضلع سے ہے،انکے والد کا نام محمد حسین خان ہے،وہ منڈیا پری یونیورسٹی کالج کی طالبہ ہے،بی کام سکینڈ ایر کی طالبہ مسکان خان نے زعفرانی اور بھگوا لشکر کا تن تنہا مقابلہ کیا،100 سے زائد سنگھ پریوار کے غنڈوں نے جب انھیں کالج کے احاطے میں ٹو وہیلر پارک کرتے دیکھا تو جے شری رام کے نعروں کے ساتھ یہ لوگ انکی جانب بڑھے، مسکان خان نے جب ان لوگوں کو اپنے قریب آتے دیکھا تو زور زور سے اللہ اکبر،اللہ اکبر کے نعرے لگائے، یہ ویڈیو آن واحد میں جنگل کے طرح پوری دنیا میں پھیل گئی، ہرطرف اس کے تزکرے ہونے لگے، اسکی بہادری، اور جوش وخروش کی مثال پیش کی جانےلگی،اس ویڈیو نے کئی لوگوں کی آنکھیں اشک بارکردی، میں نے بھی اس ویڈیو کو بار بار دیکھا اور جتنی بار دیکھا میں اپنے آنسو نہ روک سکا،آج جب یہ تحریر لکھ رہاہوں تب بھی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس ویڈیو نے میرے بدن میں لرزہ طاری کردیا، میں نے جتنی بار اس ویڈیو کو دیکھا اسلام کی درجنوں شہزادیوں کی یاد تازہ ہوگئی، اور میں ان وادیوں میں گم ہوگیا۔

مسکان خان کی ویڈیو نے فلسطین کی یاد بھی تازہ کردی، جہاں برسوں سے اپنی بے مثال قربانیاں پیش کررہی ہیں”کچھ عرصہ قبل، چند اسرائیلی فوجی، فلسطینی خواتین اور بچوں کے ساتھ بدتمیزی پر اتر آئے تو ایک فلسطینی بچی لپکی، چندلمحے مزاحمت کے بعد اس نے ایک اسرائیلی فوجی کے منھ پر زوردار تھپڑ دے مارا،بچی کا یہ تھپڑ آزادی فلسطین کی جدوجہد کی ایک نئی شناخت بن گیا،اس منظر کو اب تک کروڑوں لوگوں نے دیکھا،فلسطین کی اس بیٹی کا نام عہد تمیمی ہے،اسکے والد باسم تمیمی فلسطین کی آزادی کے لئے مسلسل جدوجہد کرنے والے جانبازوں میں سے ایک ہیں،اسکے خاندان کے جوان کیا،بلکہ کئی خواتین بھی اقصی کی آزادی کی راہ میں شہید ہوچکی ہیں، اگست 2015 میں اسکے بارہ سالہ بھائی کو اسرائیلی فوج گرفتار کرنے آئی تو اسوقت بھی وہ ان سے لڑپڑی،اور اس فوجی کے ہاتھ پر کاٹنے کا منظر بہت مشہور ہوا، 2017 میں عہد تمیمی کے گھر اسرائیلی فوجی گھسے،غیرت مند بیٹی چادر اور چار دیواری کی بے حرمتی برداشت نہ کرسکیں، اسلحہ سے لیس فوجیوں پر حملہ آور ہوئی اور گھوسے و تھپڑ کے ذریعے فوجیوں کو نشانہ بنانے لگی،2017 میں 15دسمبر کو اسرائیلی فوجیوں نے انھیں گرفتار کیا، ان کی والدہ ناریمان تمیمی بیٹی سے ملنے جیل گئی توانھیں بھی گرفتار کرلیا گیا، جج نے ہتھکڑیوں میں جکڑی فلسطین کی اس بہادر بیٹی سے پوچھا:تم نے فوجی کو کس طرح مکا مارا؟کہنے لگی۔۔۔۔۔ آپ میرے ہاتھ کھلوائیں میں مکا مار کر بتاتی ہوں، جج نے آٹھ ماہ کی سزاسنادی،29 جولائی 2018 کو جب وہ سزا مکمل کرکے جیل سے باہر نکلی تو آزادی فلسطین کے رہنماؤں نے اسکا استقبال کیا،31جنوری 2018 کو عہد تمیمی کی سالگرہ تھی،جواس نے جیل میں منائی اور دنیا بھر سے لوگوں نے انھیں پھول بھیجے۔

عجیب بات یہ ہےکہ یورپ وامریکہ کی نئی نسل کے یہودیوں نے بھی اسکے حق میں آواز بلند کی، عہد تمیمی کی بہادری نے فلسطین کی تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے، وہ جانبازی وشجاعت کا ایک استعارہ بن چکی ہے، اسکی جرأت وبہادری اور بے خوفی وجانبازی کے ایک نغمے نے آزادی فلسطین کی تحریک کےلئے ایک ملی ترانے کی حیثیت اختیار کرلی ہے”(قلم نما)

آپ کو یاد ہوگا 2019 میں جامعہ ملیہ میں سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جو احتجاج شروع ہواتھا جو بعد میں تحریک شاہین باغ میں تبدیل ہوگیا تھا، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جب جامعہ ملیہ دہلی میں احتجاج چل رہاتھا وہاں اندر کیمپس میں جس طرح پولیس داخل ہوکر غنڈہ گردی کرنے لگی اور درندوں کی طرح لاٹھی برسانے لگی تو وہاں کی بہادر طالبہ لدیدہ اور فرزانہ نے اپنی بہادری کا ثبوت پیشں کرتے ہوئے پولیس کے سامنے ڈٹ گئی تھی، یہ ویڈیو بھی خوب وائرل ہوئی اور پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں نے اس ویڈیو کو دیکھا، ان کی بہادری کی بھی مثالیں دی جانے لگی تھی۔

مسکان خان نے ایک بار پھر اسے تازہ کردیا، تحریک شاہین باغ ملک کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے،یہ تحریک 100دن سے زائد پورے ملک میں چلنے والی ایک طویل تحریک تھی،اور اس تحریک نے ملک کے مظلوم مسلمانوں کو ایک راہ دکھلائی،امید کی ایک آس جگائی،اور برسوں سے مایوسی کے عالم میں زندگی بسرکرنے والے مسلمانوں کو ایک عزم اور ایک طاقت عطاکی، اس تحریک نے مسلمانوں پر انمٹ نقوش چھوڑے، جس کے اثرات برسوں محسوس کئے جائیں گے،اس تحریک کی روح رواں بھی ملک کی خواتین ہی تھی،80برس کی بوڑھی دادیاں جو اس تحریک کا اہم چہرہ تھیں، انھیں دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں ایک میگزین نے شامل کیا، یہ تحریک اگر کامیاب ہوجاتی تو ملک میں انقلاب ضرور آجاتا، لیکن طاقت کے نشے میں چور اس مغرور حکومت نے شاہین باغ احتجاج کو تو جبرا ختم کردیا لیکن اس تحریک نے جو غیر معمولی اثرات مرتب کئے اسے یہ حکومت کیسے ختم کرےگی؟

آج ملک میں جس تیز رفتاری کے ساتھ نفرت کو عروج حاصل ہورہا ہے اور پورے ملک مسلم مخالف فضاء بنائی جارہی ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ ان چیزوں سے ملک ایک اور تقسیم کی جانب بڑھ رہا ہے، اس وقت جنوبی ریاستوں میں حجاب اور پردے کا ایشو گرم ہے اور اسطرح نفرت اور تفریق کی کھیتی کی جارہی ہے، جو ملک کے لئے کسی طور بہتر نہیں ہے،اب تو حالات یہ ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کا وجود خطرے میں ہے،انکی مذہبی شناخت پر برابر حملہ جاری ہے اور اسے ختم کی پوری کوشش کی جارہی ہے، بھارت میں مسلمان اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ہی باقی رہیں گے یہ فیصلہ مسلمانوں نے ملک کی آزادی کے بعد ہی کرلیا تھا، ہماری تہذیب و ثقافت سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، شاید اسی لئے ملک کو سیکولر قرار دیا گیا اور یہاں کے دستور کو سیکولر دستور بنایا گیا، ہر مذہب اور طبقے کو آزادی و حقوق دیئے گئے، لیکن آج آزادی، جمہوریت اور دستور پر شب خون مارا جارہا ہے، مسلمانوں ذہنی اذیت میں مبتلاء کیا جارہا ہے، ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر محاذ پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کریں، اور اپنی بقاء کے لئے جدوجہد کریں، یہ ملک کسی کے باپ کا نہیں ہے،مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی کےلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں، اور اب آگے بھی قربانی کی ضرورت ہے اس کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا، کرناٹک کی مسکان خان نے ملک کو ایک چوطرفہ پیغام دیا ہے۔

ایک پیغام تو یہاں کی سنگھی اور انتہائی متعصب حکومت کودیا ہے کہ اگر تم نے ہماری آزادی چھیننے کی کوشش کی،ہمارے حقوق پر ہاتھ ڈالا، ہماری مذہبی تعلیمات سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو ہم آخری دم تک اس کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے، دوسرا پیغام اس بچی نے مسلم قیادت بھی دیا ہے، مسلم قیادت اور مسلم تنظیمیں جس طریقے سے تعطل کا شکار ہیں، حساس معاملے میں بھی ان کے اندر حرکت پیدا نہیں ہوتی آپ یادر کھئے کہ ہم نوجوانوں کی جماعت اپنی حقوق کی لڑائی لڑنے کے لئے خود تیار ہیں، ایک تیسرا پیغام انھوں نے ملک کے دبے کچلے اور مظلوم مسلمانوں کو یہ دیا ہے کہ ابھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ابھی ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنا حق چھین کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، میں ایک بچی اور عورت ہوکر یہ کام کرسکتی ہوں تو نوجوان مردوں کو بھی اس کے لئے تیار رہنا ہوگا۔

آج ملک میں مسلمانوں کو چو طرفہ مسائل در پیش ہیں، اس کے حل کے لئے ہمیں چوطرفہ لڑائی لڑنی ہوگی، اگر ہم اس ملک میں اپنی بقاء چاہتے ہیں،بھارت جمہوریت ہمارا مقدر ہے،اس لئے ہمیں اپنے روشن مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت ہے، بھارت میں اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والے لوگ جذباتی ہیں اور جذبات نعروں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، ہم اپنے اندر خود اسلامی اقدار کو زندہ کریں، اسلامی ہدایت پر عمل آوری کو یقینی بنائیں، عملی طور پر اپنے گھروں اور اپنے معاشرے میں اسلام کو فروغ دیں، برادران وطن کو اسلام کی دعوت پیش کریں،کچھ ایسے محاذ پر ہمیں پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرناہوگا،ایک تو جمہوری انداز میں اپنے حقوق کی حصولیابی کے لئے جدوجہد کرناہوگا، دوسرے تعلیمی سطح پر ہمیں کام کرنے اور انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم اپنے علاقوں میں ایسے اسکول وکالجس قائم کریں جہاں دینی ماحول بھی ہو،یاپھر جن کالج اور یونیورسٹیوں میں ہمارے بچے تعلیم حاصل کررہےہیں وہاں ان کے لئے مذہبی تعلیم کا بھی انتظام ہونا چاہئے، خود ہمارے گھروں میں بھی دینی ماحول ہو، اسی طرح ہمیں عدالتی سطح پر بھی جدوجہد کرنی ہوگی، عدالتیں ثبوت کے باوجود ہمارے خلاف کیوں فیصلہ سناتی ہے؟ اسکی وجوہات پرغور کرناہوگا اور لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، ایسے ہی ہمیں سیاسی سطح پر بھی بیدار ہونا ہوگا اور اس تعلق سے کام کرنا ہوگا، یہ ذہن میں رکھناہوگا کہ مسلم مسلم کی سیاست اور جذباتی باتیں ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ہوسکتی، ہمیں سیاسی محاذ پر برادران وطن کو بھی ساتھ لیکر قدم اٹھانا بصورت دیگر ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی، اس لئے جمہوری نظام میں ان سارے محاذکو سنبھالنا ہوگا، جمہوری ملک میں سیاسی نہج پر بھی لڑائی لڑی جائےگی، عدالتی سطح پر بھی ہوگی، تعلیمی محاذ بھی سنبھالنا ہوگا اور ایسے ہی جمہوری انداز میں سڑکوں پر بھی نکلنا ہوگا، تب کہیں جاکر ہمیں دستوری وجمہوری حقوق حاصل ہونگے۔

کرناٹک کی شیرنی مسکان نے ملک کے کمزور مسلمانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا تو کردیا ہے اسے ہمیں برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، وقت کا ایک حکمراں حجاج ابن یوسف کو ایک کمزور اور مجبور بیٹی نے مددکرنے پر مجبور کردیا تھا، حجاج کے حکم پر محمدابن قاسم کو میدان میں بھیجا گیا تھا، اسلامی تاریخ ایسی بہت ساری مسکان خان سے بھری پڑی ہے جس کا مطالعہ ہمارے ایمان کو تازگی اور قوت عطا کرتا ہے، مسلمانوں میں جانبازی اور جاں فروشی جذبہ کیسے پیدا ہوتا ہے اور یہ قوت کس سرچشمہ سے ملتی ہے؟ اس تعلق سے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ” پھر آپ کو خود ہی سوچنا چاہئے کہ اس عہد کے مسلمانوں میں جاں فروشی اور جانبازی کی ایسی بے پناہ قوت کہاں سے آگئی؟کہ بڑے بڑے قلعے جو برسوں میں فتح نہیں ہوسکتے تھے ہفتہ دو ہفتہ میں ان کا سقوط ہوجاتا تھا، حوصلوں کی وہ بلندی کہ آج دلی میں ہیں،کل لکھنؤ میں،پرسوں دیوگڑھی میں،اورچوتھے دن کہیں اور قلعوں کے نیچے انکے گھوڑے ہنہنا رہے ہیں، رعب ودبدبہ کی یہ حالت کہ آنکھ ملانے کی ہمت بھی دشمنوں کو نہیں ہوتی تھی، ایک طرف یہ حال ہے اور دوسری طرف تاتاریوں کا سیلاب آجاتا ہے اور سرحد ہی پر یا جس مقام پر وہ ظاہر ہوتے ہیں وہیں روک دیئے جاتے ہیں، یہ واقعات ہیں خیالات نہیں پھر انقلاب کی وجہ کیا ہوئی؟

یہ قوت مسلمانوں میں کس سرچشمے سے بھری گئی،جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس میں سلطان المشائخ کے وجود کو جیساکہ اس زمانے میں محسوس کیا گیا تھا، ہندوستان کی”فوجی قوت”کی اس خاص کیفیت کے پیداکرنے میں انکو بالکل بے تعلق نہیں کہا جاسکتا اور یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں ہے جسے ہم ماورائے عقل قرار دیں، بلکہ واقعہ وہی ہے جس کا ایک دفعہ نہیں متعدد بار تجربہ کیا گیا ہے اور جس کا جب جی چاہے تجربہ کرلے وہ قرآنی آیات، اور اس کی تعلیمات کا بے پناہ زور ہے،آپ سن چکے ہیں کہ سلطان المشائخ جس شعر سے خاص ذوق ومستی کی حالت میں آجاتے تھے اور وہ زیادہ ترقرآن کی یہ آیت”فاعلم انہ لاالہ اللہ”پس جان لے کہ نہیں ہے کوئی الہ مگر اللہ ہی،اسکا فارسی ترجمہ ذراشاعرانہ رنگ میں ہوتا تھا، اسی وقت وہ شعر سارے شہر بلکہ پورے ملک میں مشہور ہوجاتا تھا،گلیوں میں،کوچوں میں، لوگ اسی کو دہراتے پھرتے تھے،سلطان المشائخ کے جن حالات کے ساتھ ان خاص اشعار کی شہرت مسلمانوں میں ہوتی رہتی تھی،کیایہ ممکن تھاکہ جس دل میں ایمان کا حبہ خردل بھی ہوتا ہوگا اس کا سینہ سلطان المشائخ کی اس بھڑکائی ہوئی آگ سے بھبھک نہ اٹھتا ہوگا، سلطان المشائخ کے زمانے میں فراخنائے ہند کے قدیم جغرافیہ میں جوعظیم انقلاب برپاہوا یہ ایک مستقل کتاب کا مضمون ہے کاش اس پر کچھ لکھاجاتا”(نظام تعلیم وتربیت)

مسکان کے اندر بھی یہی روحانی جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ دلیری پر آمادہ ہوئی، انکے والد نے بھی یہ انکشاف کیا ہے کہ مسکان خان نماز، روزہ اور تہجد کی پابند ہے، ایسی لڑکیاں کبھی ارتداد کا شکار نہیں ہوسکتی، اگر ہم بھی آج سے یہ عہد کرلیں کہ ہم اپنی اولاد کو روحانی غذا بھی فراہم کریں گے، انکی روحانی تربیت بھی ہوگی توایسی بیٹاں یقیناً والدین، خاندان اور پورے ملک کے لئے باعثِ فخر ہوگی، اور یہ ہرجگہ نام روشن کرنے کا ذریعہ بنیں گی، ایسی بیٹیاں درحقیقت حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ، حضرت سمیہ، حضرت اسماء، حضرت آسیہ، حضرت سارہ اورحضرت مریم علیہماالسلام کی حقیقی جانشین ہونگی۔ شاعر نے شاید یہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ

ہم جرأت و شجاعت و اہل وفا کی بیٹیاں
جو جھک سکا نہ بک سکا اس رہنما کی بیٹیاں
ہم ظالموں کی راہ میں دیواربن کے آئیں گے
ہم انقلابی، انقلابی، انقلابی، انقلابی بیٹیاں

(مضون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)