ملک بھر میں بم دھماکوں اور دیگر معاملات میں کئی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تاہم کئی سالوں بعد ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ مسلم نوجوان الزامات سے بری تو ہوجاتے ہیں تاہم ان کی آدھی زندگی برباد ہوچکی ہوتی ہے۔
26 جولائی 2008 کو احمد آباد میں ہونے والے سلسلہ وار دھماکوں کو ایک خصوصی ٹرائل کورٹ نے دہشت گردی کی سازش اور ایک منظم سازش قرار دیا۔ خصوصی سیشن جج اے آر۔ پٹیل نے اس معاملے میں 77 میں سے 49 ملزمین کو قصوروار قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ 28 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا ہے۔ کیس کے ملزمان کے خلاف آج سے ٹرائل شروع ہو گیا ہے۔ دھماکے کے مقدمے میں سزا یافتہ 49 ملزمان کو ورچوئل کورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔
اس معاملے میں سرکاری وکیل سدھیر بھرمبھٹ نے کہا کہ آج خصوصی عدالت نے بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ مجرموں کو اب عدالت 11 تاریخ کو سزا سنائے گی۔ بچاو پکش کے وکیل نے سزا کے اعلان کے لیے 3 ہفتے کی مہلت مانگی۔ تاہم عدالت کی جانب سے سزا کا اعلان 11 تاریخ کو کیا جائے گا۔
جب عدالت نے پورے کیس کی سماعت کی تو دفاعی وکلاء کی جانب سے عدالت سے کہا گیا کہ وہ جیل میں قید مجرموں سے ملاقات کریں۔ عدالت نے مجرموں سے یہ بھی کہا کہ وہ جانیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور بعد میں اپنا کیس پیش کریں۔
عدالت نے وکیل دفاع سے یہ بھی سوال کیا کہ کیا ملزم کی کوئی تعلیمی قابلیت ہے؟ عدالت نے ملزمان کی تعلیمی قابلیت سمیت ان کے اہل خانہ سے تفصیلات حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کیس میں 49 ملزمان کو قصوروار پایا۔ جنہیں آج عدالت نے سزا سنائے گی ۔ تاہم وکیل دفاع نے کیس کی سماعت کے لیے عدالت سے تین ماہ کا وقت مانگا۔ تاہم اب ملزمان کو 11 تاریخ کو سزا سنائی جائے گی۔