عالمی سطح پر ایک سرسری جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ پوری دنیا میں تقریباً 200 ممالک آباد ہیں، یعنی 195 ملکوں میں بہت سے ملک ایسے ہیں جنکا رقبہ اور آبادی 5لاکھ سے کم ہے، اگر ایسے ممالک کو چھوڑدیا جائے تو یہ تعداد 167 بتائی جاتی ہے،ان میں بھی کئی ممالک ایسے ہیں جو نسبتاً چھوٹے ہیں لیکن کچھ رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں،96 ممالک ایسے ہیں جنکے یہاں جمہوریت اور جمہوری نظام نافذ ہے۔
کم وبیش 48 ملکوں میں جمہوریت اور آمریت کی ملی جلی صورتحال پائی جاتی ہے،جبکہ صرف 21 ممالک ایسے ہیں جہاں مکمل آمرانہ طرز حکومت قائم ہے،اس طرح تین الگ الگ طرز حکومت کے ملکوں کا فیصد علی الترتیب 57, 28 اور13 ہے،پیور ریسرچ سنٹر کی اس سلسلے میں فراہم کردہ رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ پچاس برسوں میں دنیا میں جمہوری ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،اب سے نصف صدی قبل ان ملکوں کی تعداد 25 فیصد تھی،جو اب بڑھکر 57 فیصد ہوگئی ہے،جمہوری ملکوں کی تعداد میں اضافہ کے بارے میں جان کر ایک خوشگوار تاثر ضرور قائم ہوتا ہے، مگر ان میں کون کتنا حقیقت میں جمہوری ہے؟،اس ملک میں رہنے والی عوام اپنے یہاں پائی جانے والی جمہوریت سے کس حدتک مطمئن ہیں؟اور انھیں کتنے سیاسی، شہری،انسانی اورجمہوری حقوق حاصل ہیں،یہ سوال بہت اہم ہے،کیونکہ جب اپنے ملک کی جمہوریت بے معنی ہو، جمہوری نظام دم توڑ رہا ہو، جمہوریت آخری سانس لے رہی ہو اور پھر جمہوریت کا جھوٹا جشن منایا جارہا ہو تو ایسے میں حقیقت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
بھارت اس وقت اپنی آزادی کے 72 برس مکمل کرچکا ہے،ہر سال 26 جنوری کو پورے ملک میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے، سرکاری و غیر سرکاری ہر جگہ اس طرح کی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے، دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں،آزادی کے گیت اور ترانے گائے جاتے ہیں،مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور بس، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک آزاد ہوکر بھی غلام ہے، یہاں کے لوگ آزادی کے بعد بھی ملک میں گھٹ گھٹ کر زندگی گذاررہے ہیں، آئیے یہ بھی جان لیتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے اسکے معنی کیا ہیں؟کچھ لوگوں نے اسے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
برصغیر کے ایک ممتاز اسلامی اسکالر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ایک جگہ رقم فرماتے ہیں کہ” عام طور سے جمہوریت کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں صرف اتنا خیال رہاکہ مطلق العنان بادشاہت کے مقابلے میں یہ نظام عوام کو آزادیِ اظہارِ رائے عطا کرتا ہے اور حکمرانوں پر ایسی پابندیاں عائد کرتاہے جن کے ذریعے وہ بے مہار نہ ہوسکے اور چونکہ اسلام نے”مشاورت” کا حکم دیا ہے اس لئے جمہوریت کو مشاورت کے ہم معنی سمجھ کر کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ جمہوریت عین اسلام ہے،حالانکہ بات اتنی سادہ نہیں۔
درحقیقت جمہوری نظام حکومت کے پیچھے ایک مستقل فلسفہ ہے،جو دین کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا اور جس کےلئے سیکولرازم پر ایمان لانا تقریباً لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے، جمہوریت کی حقیقت واضح کرنے کےلئے یہ جملہ مشہور ہے یعنی "جمہوریت عوام کی حکومت کا نام ہے،جو عوام کے ذریعے اور عوام کے فائدے کےلئے قائم ہوتی ہے”لہذا جمہوریت کا سب سے بڑا رکن اعظم یہ ہے کہ اس میں عوام کو حاکم اعلی تصور کیا جاتا ہے اور عوام کا ہر فیصلہ جو کثرتِ رائے کی بنیاد پر ہوا ہو وہ واجب اور ناقابل تنسیخ سمجھا جاتا ہے،کثرتِ رائے کے اس فیصلے پر کوئی قدغن اور کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی،اگر دستورِ حکومت عوامی نمائندوں کے اختیار قانون سازی پر کوئی پابندی بھی عائدکردے(مثلا یہ کہ وہ کوئی قانون قرآن و سنت کے یا بنیادی حقائق کے خلاف نہیں بنائےگی)تو یہ پابندی اس کے لئے واجب التعمیل نہیں ہوتی کہ یہ عوام سے بالاتر کسی اتھارٹی نے عائد کی ہے، یا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے،جسے ہرحال میں ماننا ضروری ہے،بلکہ صرف اس لئے واجب التعمیل سمجھی جاتی ہے کہ یہ پابندی خود کثرتِ رائے نے عائد کی ہے، لہذا اگر کثرتِ رائے کسی وقت چاہے تو اسے منسوخ بھی کرسکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ جمہوریت نے کثرتِ رائے کو معاذاللہ خدائی کا مقام دیا ہوا ہے کہ اسکا کوئی فیصلہ رد نہیں کیاجاسکتا،چنانچہ اسی بنیاد پر مغربی ممالک میں بدسے بدتر قوانين کثرتِ رائے کے زور پر مسلسل نافذ کئے جاتے رہےہیں اورآج تک نافذ کئے جارہے ہیں،زنا جیسی بدکاری سے لیکر ہم جنسی جیسے گھناؤنے عمل تک کو اسی بنیاد پر سند جواز عطاکی گئی ہے اور اس طرز فکر نے دنیا کو اخلاقی تباہی کے آخری سرے تک پہونچادیا ہے”(ماہنامہ البلاغ کراچی)
پڑوسی ملک کے ایک دوسرے عالم مولانا عاصم صاحب ہیں جو دنیا بھرکے مذاہب و ادیان پر گہری نظر رکھتے ہیں،جمہوریت کا تعارف کچھ اسطرح کراتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ”جمہوریت جسے انگریزی میں ڈیموکریسی کہا جاتاہے،یہ لفظ اصلاً دولفظوں سے مل کر بناہے،demosاورkratos ڈیموس کے معنی پیوپل یعنی عوام اور کراٹوس کے معنی رولس یعنی حاکمیت،اب اسکے معنی یہ ہوئے Rule of the people یعنی عوام کی حاکمیت،جمہوریت کامطلب ہے لوگوں کی آزاد اور مساوی زندگی،ایک ایسا نظام جس میں حاکمیت اعلی عوام کے پاس ہوتی ہے اور عوام ہی بالواسطہ یا بلا واسطہ طریقے سے حکومت چلاتے ہیں،نظام میں عوام کی نمائندگی ہوتی ہے،جو بالعموم ہرکچھ عرصے بعد آزاد انتخابات کے ذریعے سے نمائندے چن کر کی جاتی ہے۔
جمہوری نظام حکومت کا مطلب ایک ایسا نظام حکومت جو اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سازی کے اصولوں پر قائم ہو،ایک ایسا نظام جس میں حاکمیت اعلی اللہ کے بجائے عوام کی ملکیت ہو(نعوذباللہ)اور حکومت عوام کے ذریعے منتخب کی جائے،علم وتقوی کے اعتبار سے فرق ہونے کے باوجود بھی سب کی یعنی ایک عالم اور جاہل کی،ایک فاسق اور پابند شرع کی رائے اس میں برابر ہو،ایک ایسی حکومت جس میں عقل انسانی ہی نظام زندگی بنانے والی اور انسانوں کےلئے ضابطہ حیات مرتب کرنے والی ہے،اس میں وحی کا کوئی دخل نہیں،جس چیز کو انسانی عقل وخواہش نفع قرار دے، وہ نفع ہے،اور جسکونقصان کہے وہ نقصان ہے،جس چیز کو انسانی عقل وخواہش حرام(غیرقانونی) قرار دیدے وہ حرام اور جسکو حلال(قانونی)کہہ دے وہ حلال ہے،ہوسکتا ہے کہ وحی(قرآن وسنت)کبھی اس عقل یا خواہش کے موافق ہوجائے لیکن اس نظام میں قرآن وحدیث(نعوذباللہ)اس وجہ سے قابل عمل نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمان ہے،بلکہ انسان نے اسکو اس قابل سمجھاکہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے، تو پھر اس کو قانون بنایا جاسکتا ہے۔
چنانچہ جمہوریت کی تعریف یہ ثابت کرتی ہے کہ اس نظام میں انسانی عقل اور خواہشات کو قرآن وسنت(وحی) پربھی بالادستی ہوگی”(ادیان )
یہ جمہوریت کی تعریف ہے جوعلماء نے کی ہے،برطانوی ادارہ فریڈم ہاؤس نے گذشتہ دنوں ایک رپورٹ شائع کی ہے،جس میں اس ادارے نے دنیا بھر کے تمام یعنی 195 ممالک کے حالات جاننے کی کوشش کی تھی،جبکہ دی اکنامک انٹلیجنس یونٹ کے ڈاٹا برائے جمہوریت کےلئے جن 167 ملکوں کا سروے کیا گیا،ان میں صرف 20 ملکوں کو ہی مکمل جمہوری قراردیاگیا،جبکہ 55 ملکوں کے بارے میں اس ادارے نے محسوس کیاکہ وہاں ناقص جمہوریت پائی جاتی ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ناقص جمہوریت والے ملکوں میں امریکہ بھی شامل ہے،جوخود کو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار قرار دیتاہے،اور خود ہمارا ملک بھی اسی زمرے میں شامل ہے،گذشتہ چندسالوں سے پورے ملک میں جو کچھ ہورہاہے یہ آپ سے مخفی نہیں ہے،ملکی جمہوریت کو کس طرح داغدار کیاگیا،اس پرشب خون کا سلسلہ کس طرح جاری ہے،کس طرح جمہوریت کا جنازہ نکالا جارہا ہے یہ بھی آپ جانتے ہیں، یہ وہی جمہوریت ہے جو برسوں کی جدوجہد اور لاکھوں ہندوستانیوں کی قربانیوں کے بعد ہمارے بزرگوں نے انگریزوں سے حاصل کیا،دستور میں بلالحاظ مذہب ،ذات اور فرقہ ہر ہندوستانی شہری کو مساوی حقوق دیئے گئے،آج اس پر کس حدتک عمل ہورہاہے؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
15اگست 1947 کو بھارت انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور 26جنوری 1950 کو اس ملک کو جمہوری قرار دیاگیا،اورملک کےلئے ایک جمہوری وسیکولر دستور مرتب کیاگیا جولوگ آج اقتدار پر قابض ہیں یہ دستور اسوقت بھی انھیں منظور نہیں تھا،اورآج بھی یہ لوگ جمہوری ڈھانچے کو نیست ونابود کرنےکےلئے تیار ہیں،ملک میں دہشت گردی کی ابتداء ہندوتو وادیوں نے ملک میں سیکولر اورجمہوری دستور کے نافذ ہونے سے قبل ہی کردی تھی،انکے بم اور بندوق سے جب راشٹرپتا بھی محفوظ نہیں رہے تو جن طبقات سے یہ لوگ نفرت کرتے ہیں ایس سی،ایس ٹی،دلت،مسلمان،سکھ عیسائی وغیرہ وہ انکے نشانے پر آج بھی ہیں،لہذٰا فاشسٹ،دہشت گرد عناصر کو جو ہمارے ملک کے جمہوری ڈھانچے کو اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل کےلئے ہائی جیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں،انھیں لگام دینےکی ضرورت ہے، یہ وہی لوگ ہیں جنکے باپ دادا نے ملک کےلئے کوئی قربانی نہیں دی،بلکہ انگریزوں سے معافی مانگی، آزادی میں جن لوگوں کا ذرہ برابر کوئی حصہ نہیں بدقسمتی سے آج یہی لوگ ملک کے اقتدار پر قابض ہیں اور بھارت کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں، ہر قدم پر جھوٹ،نفرت،دھوکے بازی انکے رگ و پے میں شامل ہے ایسے لوگ ملک کو ترقی کی جانب لے جائیں گے یا اسے برباد کریں گے؟
آپ سوچئے، مٹھی بھر لوگوں کا یہ گروہ آج آئین بدلنے کی پوری کوشش میں مصروف ہے،اور ملک کے موجودہ آئین کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے،اسی لئے کھلے عام دستور کا مذاق اڑایا جارہا ہے، لوگوں کے حقوق غصب کئے جارہے ہیں،سماجی انصاف کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ایسے میں جشن یوم جمہوریہ منانا کیسے مناسب ہے؟ آزادی کی تاریخ کو توڑ مروڑکر پیش کرنے اور تاریخ مسخ کرنے کی پوری تیاری ہورہی ہے،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ترجمان”پیپلز ڈیموکریسی” نے اپنے اس ماہ کے تازہ ایڈیشن کے اداریے میں لکھا ہے کہ”ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر مرکزی حکومت کی جانب سے منائے جانے والے ‘آزادی کا امرت مہوتسو’توڑ مروڑکر پیش کرنے اور جدوجہد آزادی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا ہندتوا سے وابستہ لوگوں کو ‘ہیرو’ کے طور پر لکھنے اور شامل کرنے کی کوشش ہے۔
اس میں مزید کہاگیاہے کہ ہندتوا نظریہ اور آرایس ایس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی طرح سے آزادی کی جدوجہد سے وابستہ نہیں ہیں،مودی حکومت تاریخ کو مسخ کرنے اور دوبارہ لکھنے کی کوشش کررہی ہے،اور یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا ہندتوا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آزادی کی جدوجہد میں ہیرو کے طورپر شامل کرنے کی کوشش کررہی ہے،اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزارت اطلاعات ونشریات کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیا ہے کہ سوامی وویکانند اور رمنا مہارشی نے 1857 کی آزادی کی جدوجہد کو متاثر کیا، جبکہ سوامی وویکانند 1863 اور رمنا مہارشی 1879 میں پیداہوئے”۔
اس رپورٹ کو آپ پڑھئے اور غورکیجئے کہ کس طرح حقیقت سے روگردانی کرتے ہوئے تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اوراسے تبدیل کیاجارہاہے،کیا یہ ملک کی بدقسمتی نہیں ہے کہ آج ایسے جھوٹے اور مکار لوگ ملک کے اقتدار پر قابض ہیں،اورملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنے جھولی بھررہے ہیں اور یہاں کے غریبوں کو کنگال کررہے ہیں۔ان میں اور ایسٹ انڈیا کمپنی والوں میں بہت بڑی مماثلت ہے سب ایک ہیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ملک اور غریب تو ہوگا لیکن ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا۔
(مضون نگارکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)